اس مہم میں بھاری ہتھیاروں سے لیس تقریباً 800 پولیس اہلکاروں نے دو شہروں میں کئی ٹھکانوں پر چھاپے مارے
آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ کا کہنا ہے کہ ملک کی پولیس نےانسدادِ دہشت گردی کی ایک بڑی کارروائی کے تحت کم سے کم 15 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
وزیراعظم ٹونی ایبٹ کے مطابق یہ کارروائی دولتِ اسلامیہ کے رہنما کی جانب سے احتجاجی ہلاکتوں کے اعلان کے بعد کی گئی ہیں۔
دنیا, دہشت گردی
آسٹریلیا کی پولیس نے سڈنی اور برزبین میں 15 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس اسے آسٹریلیا میں ’دہشت گردوں کے خلاف سب سے بڑی مہم‘ بتا رہی ہے۔
اس مہم میں بھاری ہتھیاروں سے لیس تقریباً 800 پولیس اہلکاروں نے دو شہروں میں کئی ٹھکانوں پر چھاپے مارے۔
آسٹریلوی میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق شدت پسندوں کا منصوبہ تھا کہ کسی بھی عام آدمی کا گلا کاٹ دیا جائے گا۔
عراق اور شام میں جاری کشیدگی کے پیشِ نظر اس دھمکی کو بے حد سنگین قرار دیا جا رہا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سڈنی کے مغربی علاقوں اور برزبین کے جنوبی حصے میں کئی ٹھکانوں پر چھاپے مارے گئے۔
آسٹریلیا کی وفاقی پولیس کے ایگزیکٹیو کمشنر اینڈریو كلون نے کہا کہ مہم ابھی جاری ہے اور حکام اب بھی مشتبہ ٹھکانوں کی تلاش میں ہیں۔
اطلاعات کے مطابق شدت پسندوں کا منصوبہ تھا کہ کسی بھی عام آدمی کا گلا کاٹ دیا جائے گا
انھوں نے کہا: ’حکام اور عام لوگوں کا تحفظ اب ہمارے لیے سب سے بڑی ترجیح ہے۔‘
ایگزیکٹو کمشنر نے کہا کہ ’سڈنی میں 25 تلاشی کے وارنٹس عمل میں لائے گئے اور 15 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ایک شخص کے خلاف دہشت گردی سے متعلق سنگین جرم کا الزام لگایا گیا ہے۔‘
كلون نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے خفیہ یونٹ سے ملنے والی ان اطلاعات کے بعد کارروائی کی ہے کہ آسٹریلیا کی سرزمین پر پرتشدد کارروائی ہو سکتی ہے۔
گذشتہ ہفتے آسٹریلیا نے اپنے شہریوں کے اسلامی گروہوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے رابطوں اور ان سے متاثر ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں سے متعلق ممکنہ خطرات کا درجہ بڑھا دیا تھا۔
درجنوں آسٹریلوی شہری جہادی گروہوں کی طرف سے لڑنے کی غرض سے مشرقِ وسطی کے ممالک میں گئے ہیں
حکام کے مطابق درجنوں آسٹریلوی شہری جہادی گروہوں کے طرف سے لڑنے کی غرض سے مشرقِ وسطی کے ممالک میں گئے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ کم سے کم 60 آسٹریلوی شہری شام اور شمالی عراق میں جہادی گروہوں کے ساتھ ہیں جبکہ اب تک 15 آسٹریلوی ان لڑائیوں میں مارے جا چکے ہیں، جن میں خود کش بمبار بھی شامل ہیں۔
آسٹریلیا کی پولیس کا کہنا ہے کہ کم سے کم 100 افراد ایسے بھی ہیں جو ان گروہوں کی عملی طور پر حمایت کر رہے ہیں۔
آسٹریلوی حکام لڑائی سے لوٹنے والوں اور ان کے حامیوں کے ملک کی اندرونی سلامتی پر پڑنے والے اثرات سے پریشان ہیں۔
سنہ 2003 کے بعد پہلی مرتبہ خطرے کا درجہ درمیانے سے بڑھا کر شدید کیا گیا ہے۔