لکھنؤ۔(نامہ نگار)۔اترپردیش ضمنی انتخابات کے نتائج میں یو پی بی جے پی کو زبردست شکست کا تمغہ دے کر اس کے پورے ڈھانچہ کو کٹگھرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ ریاستی بی جے پی کے صدر ڈاکٹر لکشمی کانت باجپئی نے شکست کے اسباب کا جائزہ لینے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اب ایسے میں اس انتخابی شکست کا خمیازہ کس کو بھگتنا پڑے گا اس سلسلہ میں چرچاؤں کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی مانیں تو اسمبلی انتخابات سے قبل یو پی بی جے پی کے کئی چہرت زمین دوز ہوسکتے ہیں ۔ سیاسی تنقید نگار کہتے ہیں کہ لوک سبھا انتخابات میں چلانریندر مودی کا جادو رائے دہندگان کو نہیں لبھا پایا اس کے ساتھ ہی بی جے پی کا فرقہ پرستی کا کارڈ بھی چاروں خانے چت ہو گیا۔ مغربی اترپردیش میں عام انتخابات سے قبل ہی سیاسی پارٹیوں نے فسادات کا خوب فائدہ
ٹھایا تھااس پر جم کر بیان بازی ہوئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ رائے دہندگان ہندو بنام مسلم میں تقسیم ہو گئے اور ووٹوں کی تقسیم ہو گئی تھی جس کا پورا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ ضمنی انتخابات میں بھی بی جے پی نے یہی کارڈ کھیلا اور اترپردیش کو فرقہ پرستی کے مدعوں پر مسلسل گرم رکھا۔ متھرا میں بی جے پی نے قومی مجلس عاملہ کے جلسہ میں غیر اخلاقی طور پر لوجہاد کا مدعا اٹھایا گیا جسے کیش کرنے کیلئے یوگی آدتیہ ناتھ کو آگے بھی کیا گیا۔انہوں نے کئی سلگتے ہوئے بیان بھی دیئے لیکن ان دونوں معاملوں میں بی جے پی دو ٹکڑوں میں تقسیم نظر آئی۔ لو جہاد مدعے پر اعلیٰ قیادت کی ہدایت کے بعد بی جے پی اس سے علیحدہ ہو گئی۔ پہلے بیان بازی پھر اس سے دور بھاگنا بھی رائے دہندگان کے درمیان بی جے پی کی شبیہ کو برقرار نہیںرکھ پایا۔ سیاسی تنقید نگار کہتے ہیں کہ یوپی بی جے پی پورے انتخابات کے دوران اپنا مدعا مضبوطی سے نہیں رکھ پائی۔شاید اس کے پیچھے سیاسی تال میل نہ بٹھا پانا اہم سبب رہا ہے۔ یو پی بی جے پی کے پاس ریاستی حکومت کی ناکامیوں کا ذخیرہ تھا۔ حال ہی میں ہوئے بڑے معاملے اس کی جھولی میں تھے۔ سماج وادی رہنماؤں کی جانب سے عوام کو کوسنے والے بیان آگ میں گھی کا کام کر سکتے تھے۔ بی جے پی کے پاس سماج وادی حکومت کو اپنی سیٹوں سے دور بھگانے کے سارے حربے موجود تھے لیکن ان کا فائدہ وہ نہیں اٹھا پائی۔ اب ایسے میں اگر جائزہ لیا جائے تو پورا الیکشن انتظامیہ کٹگھرے میں کھڑا نظر آئے گا اس کے ساتھ وہ لیڈر بھی لائن میں کھڑے نظر آئیں گے جو انتخابی تشہیر میں شامل تو رہے لیکن ان کا نجی تعاون محض خاموش تماشائی بنا رہا۔ عام انتخابات میں پانچ سیٹوں پر سمٹنے والی سماج وادی پارٹی نے ضمنی انتخابات میں واپسی کرتے ہوئے بی جے پی کو زبردست شکست دی ہے ایسے میں مودی حکومت کے ۱۰۰ دن بعد ہوئی شکست کے اسباب کا پتہ لگانے کیلئے پارٹی کس کروٹ بیٹھے گی یہ ابھی سے تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اتنا ضرور طے ہے کہ اگر اسمبلی ۲۰۱۷ کو فتح کرنا ہے تو ابھی سے اسباب کی تلاش کرنی ہوگی جو ضمنی انتخابات میں اہم رہے ہیں۔