شری ہری کوٹا :مریخ کی جانب ہندوستان کا پہلا خلائی مشن منگل کو روانہ ہوگیا ہے جس کے بعد ہندوستان سرخ سیارے پر خلائی مشن بھیجنے والا پہلا ایشیائی اور دنیا کا چوتھا ملک بن گیا ہے۔ایک اعشاریہ پینتیس ٹن وزنی خلائی راکٹ ہندوستان کے معیاری وقت کے مطابق دوپہر دو بج کر اڑتیس منٹ پر روانہ ہوا۔مریخ مشن ہندوستان کے مشرقی ساحل پر واقع شری ہری کوٹا سے لانچ کیا گیا۔
اس مشن پر کْل ساڑھے چار ارب روپے لاگت آئی ہے۔مریخ پر بغیر انسان خلائی جہاز بھیجے جانے کو ہندوستان کے خلائی پروگرام میں ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ہندوستان کی خلائی ایجنسی اسرو امریکہ، روس اور یورپی یونین کی خلائی ایجنسی کے بعد چوتھی ایسی ایجنسی ہے جو مریخ کی جانب جہاز بھیجنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ہندوستانی روبوٹک جہاز نے سرخ سیارے کے لیے دس ماہ کا سفر شروع کیا ہے اور اس دوران وہ ۴۲کروڑ ۲۹لاکھ کلو میٹر سے زائد کا فاصلہ طے کرے گا۔اس خلائی جہاز میں پانچ مخصوص آلات موجود ہیں جو مریخ کے بارے میں اہم معلومات جمع کرنے کا کام کریں گے۔ان آلات میں مریخ کی سطح پر زندگی کی علامات اور میتھین گیس کا پتہ لگانے والے سینسر، ایک رنگین کیمرہ اور سیارے کی سطح اور معدنیات کا پتہ لگانے والا تھرمل امیجنگ سپیکٹرومیٹر جیسے آلات شامل ہیں۔۸۰۰۲ء میں چاند کے لیے ہندوستان کی بغیر انسان کے مہم انتہائی کامیاب رہی تھی۔ اس مہم سے ہی چاند پر پانی کی موجودگی کا پہلا پختہ ثبوت ملا تھا۔ہندوستانی سیٹلائٹ تنظیم (اسرو) کے چیئرمین کے رادھا کرشن کا کہنا ہے کہ ۸۰۰۲ء کی اس مہم کے بعد ہندوستان کا مریخ مہم (مارز مشن) تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔اسرو کے لیے کام کرنے والے بنگلور کے پانچ سو سے زیادہ سائنسدانوں نے اس دس کروڑ ڈالر کی مہم پر دن رات کام کیا ہے۔ اس مشن کا رسمی اعلان وزیر اعظم من موہن سنگھ نے گذشتہ سال اگست میں ہی کر دیا تھا کہ ہندوستان سرخ سیارے پر خلائی جہاز بھیجے گا۔اس منصوبے کے ایک اہم رکن بتاتے ہیں کہ وہ گذشتہ ۵۱مہینوں سے مریخ مشن کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں، اس دوران انہوں نے ایک دن کی بھی چھٹی نہیں لی ہے۔ حتٰی کہ وہ بنگلور میں واقع اسرو سیٹلائٹ سینٹر میں ہی سویا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ گھر صرف ’ایک یا دو گھنٹے‘ کے لیے ہی جانا ہو پاتا ہے۔ہندوستان میں خلائی تحقیق کے ادارے اسرو (آئی ایس آر او) کے سربراہ کے رادھا کرشن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس شعبے میں ہندوستان کا کردار دنیا کے لیے مثالی ہے۔ اگر ہم مرکزی حکومت کے اخراجات کی بات کریں تو ہم بجٹ کا صرف ۰ء۴۳فیصد حصہ ہی اپنے خلائی پروگرام پر خرچ کرتے ہیں۔’اس کا زیادہ تر حصہ ٹیلی مواصلات اور سمت نما مصنوعی سیارہ کی تعمیر پر خرچ ہو جاتا ہے۔ مریخ مشن پر اس کا صرف آٹھ فیصد خرچ ہوا ہے جبکہ اس کے فوائد بہت ہیں۔‘