نئی دہلی:کیا شیلا دکشت گزشتہ اسمبلی انتخابات میں اروند کیجریوال سے ملی کراری شکست کا حساب برابر کرنے اس بار انتخابی میدان میں اتریں گی؟ کیا نئی دہلی اسمبلی علاقے میں دو سابق وزرائے اعلی کی انتخابی ٹکر ہوگی؟ صوبے کے سیاسی گلیاروں میں یہ سوال بڑی شدت سے پوچھا جا رہا ہے.
کیجریوال کے پھر سے نئی دہلی اسمبلی حلقہ سے انتخابی میدان میں اترنے کے اشارہ ہیں. دوسری طرف پردیش کانگریس کی جانب سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پارٹی شیلا دکشت سے انتخاب لڑنے کی درخواست کر سکتی ہے. لہذا، یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر دکشت الیکشن لڑنے کو تیار ہو جاتی ہیں تو نئی دہلی سیٹ پر بے حد دلچسپ اور زوردار انتخابی مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے.
26 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی کیجریوال نے
محض 11 مہینے پہلے، آٹھ دسمبر کی صبح جب دہلی اسمبلی انتخابات کی ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو صوبے کی سیاست میں مانو بھونچال آ گیا. کانگریس کی مخالفت کی آندھی چل رہی تھی اور اس میں حکمراں جماعت کے باقی سورماو کی کون کہے، خود اس وقت کے وزیر اعلی شیلا دکشت نے اپنی سیٹ نہیں بچا پائی. انہیں سیاست کے نوسکھئیے سمجھے جانے والے اروند کیجریوال نے تقریبا 26 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی. لیکن اب شیلا کے سامنے اپنی طاقت کو دکھانے کا موقع ہے. کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے بتایا کہ شیلا دکشت کو پارٹی کی طرف سے یقینی طور پر کہا جائے گا کہ وہ الیکشن لڑیں، باقی وہ کیا فیصلہ کرتی ہیں، یہ ان کے ہاتھ میں ہے. دکشت نے حال ہی میں کچھ نیوز چینلز سے کہا بھی کہ دہلی اسمبلی انتخابات لڑنا ان کی ترجیح نہیں ہے. لیکن یہ بھی کہا تھا کہ پارٹی کا فیصلہ ان کے لئے آخری ہو گا.
انتخاب لڑیں تو نکالے جائیں گے معنی شیلا دکشت کے قریبی لوگوں کی مانیں تو وہ الیکشن لڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں. سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس انہیں دلی کے انتخابی میدان میں اتارتی ہے تو انہیں وزیر اعلی کے مستقبل کے امیدوار کے طور پر دیکھا جائے گا اور یہ بھی سمجھا جائے گا کہ پارٹی ان کی ہی قیادت میں انتخابی میدان میں اترے گی. تاہم، پردیش کانگریس کے رہنماو ¿ں کا کہنا ہے کہ کانگریس میں کبھی بھی وزیر اعلی کے عہدے کا امیدوار کا اعلان کر الیکشن لڑنے کی روایت نہیں رہی ہے. ایسے میں پارٹی ریاستی صدر ارودر سنگھ لولی کی قیادت میں ہی الیکشن لڑے گی اور کانگریس صدر سونیا گاندھی اور پارٹی نائب صدر راہل گاندھی کے نام پر ہی ووٹ ماگےگی۔ سیاسی گلیاروں میں یہ بحث ضرور ہے کہ شیلا انتخابات ضرور ہار گئی ہوں لیکن دہلی میں ان کا رسوخ آج بھی کم نہیں ہے. وہ انتخابی میدان میں اتریں تو فرق پڑے گا لیکن یہ تبھی شمار جب وہ الیکشن لڑنے کو تیار ہو جائیں.