نئی دہلی: ملک میں تکنیکی تعلیم کے ممتاز ادارے آئی آئی ٹی میں گریجویشن اب مہنگی ہو جائے گی۔ حکومت نے ان اداروں میں فیس 90 ہزار روپے سے بڑھا کر دو لاکھ روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، تاہم، درج فہرست ذات و قبائل ، معذوروں اور ایک لاکھ سے کم سالانہ آمدنی والے خاندانوں کے طالب علموں کو مکمل راحت دے دی گئی ہے ۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اس کے ساتھ ہی پانچ لاکھ روپے سے کم سالانہ آمدنی والے طبقہ کے خاندانوں کے طالب علموں کو فیس میں دو تہائی چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ فیس کی یہ نئی شرح آئندہ تعلیمی سیشن میں داخلہ لینے والے طالب علموں پر نافذ ہوگی۔ آئی آئی ٹی بورڈ کی مستقل کمیٹی نے گزشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ میں فیس تین گنا کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس پر آخری فیصلہ کونسل کی صدر اور ترقی انسانی وسائل کے وزیر اسمرتی ایرانی کو لینا تھا۔آئی آئی ٹی میں اس سے پہلے 2013 میں فیس بڑھائی گئی تھی۔ تب سالانہ فیس 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 90 ہزار روپے کی گئی تھی۔ آئی آئی ٹی کے اداروں میں تقریبا 80 ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔
فیس میں اضافے کے اثر کو کم کرنے کے لئے کے طالب علموں کے لئے بینکوں سے سود سے مبرا تعلیمی قرض فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے گا۔ انہیں یہ سہولت انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لینے کے ساتھ ہی دے دی جائے گی۔ طالب علموں کے ذریعہ لیا گیا قرض تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کی ملازمت سے ہونے والی کمائی سے چکانا ہوگا۔حکومت کا خیال ہے کہ فیس میں چھوٹ دینے سے ملک بھر کے آئی آئی ٹی کے طالب علموں میں سے تقریبا 50 فیصد کو فائدہ ہو گا۔ آئي آئی ٹی میں درج فہرست ذاتوں کے لئے 15 فیصد ، درج فہرست قبائل کے لئے 7.5 فیصد جبکہ دیگر پسماندہ طبقے کے لئے 27 فیصد نشستیں مختص ہیں۔آئی آئی ٹی کے ڈائریکٹر طویل عرصے سے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ ادارے کو مالی طور پر خود مختار بنا کر تحقیق کا ایک بین الاقوامی مرکز بنایا جائے ۔ سال 2012-13 میں اس مقصد سے قائم شدہ کاکوڈکر کمیٹی نے بھی ایسے ہی ایک ماڈل کا مشورہ دیا تھا۔ کاکو ڈکر کمیٹی کی تشکیل اس وقت کے وزیر ترقی انسانی وسائل کپّل سبل نے کی تھی۔