بی جے پی آرٹیکل 370 کو ہٹانے کی بات کرتی آئی ہے اور یہ اس کا انتخابی وعدہ بھی ہے
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے لیے انتخابی ماحول جیسے جیسے گرم ہو رہا ہے ویسے ویسے آرٹیکل 370 ایک بار پھر سے انتخابی موضوع بنتا نظر آرہا ہے۔
آرٹیکل 370 جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کے تحت ریاست سے باہر کے لوگ وہاں زمین اپنے نام نہیں خرید سکتے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اس معاملے پر بحث چاہتی ہے جبکہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے لیڈر کہتے ہیں کہ یہ بحث کا موضوع نہیں ہے۔
ریاست میں 25 نومبر سے 20 دسمبر تک 5 مراحل میں انتخاب ہوگا اور بی جے پی نے تمام 87 نشستوں پر اکیلے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کانگریس پارٹی کے جموں کشمیر کے صدر سیف الدين سوز کہتے ہیں آرٹیکل 370 ایک اکیلا آلہ ہے جو ریاست کو آئینی طور پر بھارت سے جوڑتا ہے۔
’370 نہیں رکھو گے تو رشتہ کہاں رہے گا کشمیر کا ہندوستان سے؟ یہ بحث کا موضوع ہو ہی نہیں سکتا۔‘
ان کا کہنا ہے بی جے پی اسے مسئلہ بنا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ریاست کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بھی اپنی ایک حالیہ ٹویٹ میں اس پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ’آئین کے مطابق شق 370 ہی ریاست کو ہندوستان سے جوڑتی ہے، تو اسے نکالنے کا کہاں سوال پیدا ہوتا ہے۔‘
کانگریس کے سیف الدین سوز کا دعوی ہے کہ بی جے پی کو انتخابات میں شکست ہو گی
بی جے پی اسے ہٹانے کی بات کرتی آئی ہے اور یہ اس کا انتخابی وعدہ بھی ہے۔
اگر اسمبلی اس سلسلے میں ایک قرارداد منظور کرے تو بھارتی پارلیمنٹ اس پر غور کرنے کے لیے مجبور ہوگی اور بی جے پی اپنا وعدہ اسی وقت پورا کر سکتی ہے جب اسمبلی میں اسے اکثریت ملے اور ریاست میں اس کی حکومت ہو تاکہ وہ اس سلسلے میں ایک تجویز منظور کر سکے۔
لیکن سیف الدین سوز کا دعوی ہے کہ بی جے پی کو انتخابات میں شکست ہو گی۔ انہوں نے بی جے پی پر الیکشن میں پیسے کے استعمال کا الزام لگایا۔
انہوں نے کہا، ’یہ سارے سرمایہ دار کشمیر میں پیسے دے رہے ہیں۔ مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں مودی کو کشمیر میں بہت بڑی شکست ہو گی۔‘
تاہم، بہت سے تجزیہ کار مان رہے ہیں کہ بی جے پی جموں کشمیر میں پہلی بار حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہو سکتی ہے۔ جموں میں اس کی حالت کافی مضبوط ہے اور اگر وادی کشمیر میں علیحدگی پسند جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔
لیکن، سیف الدین سوز کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ اس بار علیحدگی پسند جماعتیں انتخابات کے بائیکاٹ نہیں کریں گی۔
سیف الدین سوز کہتے ہیں کہ ریاست میں کسی کی بھی حکومت بنے، ان کی پارٹی کے بغیر حکومت نہیں بن سکتی۔
وہ تو یہاں تک دعوی کرتے ہیں کہ ان کی پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی۔’کانگریس پارٹی کے بغیر کوئی مخلوط حکومت نہیں بن سکتی۔ ہم سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھریں گے۔