اس وقت کم از کم 100 آسٹریلین شہری مشرق وسطیٰ میں جاری لڑائیوں میں شریک ہیں
آسٹریلیا میں پولیس کا کہنا ہے کہ میلبرن سے تعلق رکھنے والی ایک درجن کے قریب لڑکیاں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کر چکی ہیں۔
حکام کے مطابق ان لڑکیوں کو جن کی عمریں 18 سے 29 برس کے درمیان ہیں، سوشل میڈیا پر بھرتی کیا گیا۔
وکٹوریہ پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ان میں سے پانچ اس وقت دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
سنہ 2014 کے وسط سے دولت اسلامیہ میں آسٹریلوی شہریوں کی شمولیت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
آسٹریلوی حکومت جلد ہی ایسی قانون سازی کرنے والی جس کے تحت عراق یا شام میں لڑنے والے ایسے افراد کی آسٹریلین شہریت ختم کر دی جائےگی جو دوہری شہریت کے حامل ہوں گے۔
اس قانون سازی کے بعد ایسے افراد کے خلاف بھی کارروائی ممکن ہو سکے گی جو آسٹریلیا میں رہتے ہوئے شدت پسند گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔
آسٹریلوی حکام نے رواں برس اپریل میں پیکس نامی ٹاسک فورس تشکیل دی تھی جس کا کام وکٹو
ریہ کے ان شہریوں پر نظر رکھنا تھا جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ شدت پسندوں سے ملے ہوئے ہیں۔
اس ٹاسک فورس کے اہلکاروں نے جمعے کو ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ میلبرن سے تعلق رکھنے والی پانچ لڑکیاں دولتِ اسلامیہ کے پاس عراق یا شام پہنچ چکی ہیں جبکہ چار لڑکیاں اس شدت پسند تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد ترکی تک پہنچ گئی تھیں تاہم انھیں وہاں سے واپس بھیج دیا گیا۔
اس کے علاوہ ایک لڑکی کو آسٹریلوی کسٹمز کے اہلکاروں نے روکا جبکہ دو کے بارے میں معلومات نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔
ان تمام لڑکیوں کا تعلق میلبرن کے شمالی اور جنوب مشرقی مضافات سے ہے۔
میلبرن پولیس کی اسسٹنٹ کمشنر ٹریسی لنفرڈ کا کہنا ہے کہ ٹاسک فورس میں اب دو ماہرینِ نفسیات بھی شامل کیے گئے ہیں تاکہ خواتین میں پائے جانے والے اس رجحان کی وجہ معلوم کی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے ہمیں ایسے نوجوانوں کی نشاندہی اور ان کے خاندانوں سے رابطے میں مدد ملے گی جن کے ریڈیکلائزیشن کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔
مقامی آسٹریلوی میڈیا کے مطابق پولیس نے جن لڑکیوں کے دولتِ اسلامیہ سے تعلق کا انکشاف کیا ہے ان میں سے ایک 21 سالہ زہرہ دمان بھی ہیں جو مبینہ طور پر والدین کو بتائے بغیر دسمبر 2014 میں شام گئیں تاکہ میلبرن سے ہی تعلق رکھنے والے شدت پسند محمود عبدالطیف سے مل سکیں۔
خیال ہے کہ محمود عبدالطیف جنوری میں لڑائی کے دوران ہلاک ہو چکا ہے تاہم زہرہ تاحال واپس نہیں آئی ہیں۔
ہیرالڈ سن نامی اخبار نے ایک اور لڑکی کی شناخت دلیل قصاب کے طور پر کی ہے۔
حالیہ چند ماہ میں آسٹریلیا میں دہشت گردی کے واقعات پیش آئے ہیں
پولیس کا کہنا ہے کہ ان لڑکیوں کو دولتِ اسلامیہ میں شمولیت کے لیے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور وہ اپنے خاندان والوں سے جھوٹ بول کر سفر کرتی ہیں۔
حکام نے خبردار کیا ہے کہ ایسی خواتین کو یا تو زبردستی شادی یا پھر جنسی غلامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس وقت کم از کم 100 آسٹریلین شہری مشرق وسطیٰ میں جاری لڑائیوں میں شریک ہیں جن میں سے تقریباً نصف دہری شہریت کے حامل ہیں۔
اس کے علاوہ مزید 150 افراد آسٹریلیا میں ایسی تنظیموں کی حمایت کرتے پائے گئے ہیں۔
آسٹریلیا میں بیرون ملک جا کر لڑنے کی منصوبہ بندی کے شبہ میں پاسپورٹ ضبط کرنے کا قانون موجود ہے اور اب تک تقریباً 100 پاسپورٹ قومی سلامتی کی بنیاد پر منسوخ کیے جا چکے ہیں۔