آسٹریلیا میں اسلام اور نسل پرستی کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے دوران پولیس نے دس آسٹریلوی باشندوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
اتوار کو میلبورن کے نواحی علا قے میلٹن میں جھڑپوں کے بعد چھ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ پولیس نےگھوڑے کو گھونسہ مارنے والے ایک 29 سالہ شخص کو بھی مرچوں کا سپرے کر کے قابو کیا۔
آسٹریلیا میں پہلی مسلم سیاسی جماعت کا قیام
نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے اس شخص کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دیگر تین افراد کو کوئنزلینڈ، نیوساؤتھ ویلز اور ساؤتھ آسٹریلیا کی ریاستوں میں مختلف مظاہروں کے دوران گرفتار کیا گیا۔
سڈنی، ایڈیلیڈ، اور برسبین میں پکڑے جانے والے ان افراد پر قومی یادگار کو نقصان پہنچانے، دنگا فساد کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کے الزامات ہیں۔
ملک کے دیگر شہروں کینبرا، پرتھ اور ہوبارٹ میں بھی اتوار کو اسلام اور نسل پرستی کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں لیکن پولیس کے مطابق وہاں سے کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
میلٹن میں ایک شخص نے میڈیا کو بتایا کہ اس نے قوم پرست گروپ ری کلیم آسٹریلیا کی ریلی میں ایک ’صحیح مقصد کے لیے‘ شرکت کی۔
انھوں نے آسٹریلین ایسوسی ایٹد پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ کچھ لوگ یہاں ضرور برے مقصد سے آئے ہوں گے لیکن صحیح مقصد یہی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے ہر شخص برابر ہو اور آسٹریلین کہلائے۔‘
’ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائے جیسے ہم اس جگہ سے کوئی تعلق نہ رکھتے ہوں، اور ہم نہیں چاہتے کہ ایک ایسا ادارہ ہو جہاں ایک مخصوص نسب کے لوگ دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہیں۔ ہم اپنے علاقے میں بدمزگی نہیں چاہتے۔‘
ڈارون کی پولیس کا کہنا ہے کہ ملک کے شمالی علاقے کے شہر میں کوئی ریلی نہیں نکالی گئی۔
پولیس کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ ہم کافی رودار ہیں اور ہم ڈارون کے ہر شخص سے پیا ر کرتے ہیں۔’
ری کلیم آسٹریلیا گروپ پورے آسٹریلیا میں متواتر ریلیاں منعقد کرواچکا ہے جن میں کئی پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
اس سال جولائی میں میلبورن میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں اور قدامت پسند قوم پرستوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے تھے۔