منیٰ میں حج کے آخری روز شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں
منیٰ میں حج کے ارکان کی ادائیگی کے دوران بھگدڑ سے سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ بی بی سی سے اس واقعے کے عینی شاہدین کے علاوہ وہاں موجود دیگر حاجیوں سے بھی واقعے کی تفصیلات حاصل کیں جو یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔
گرمی سے بے حال لوگ گرنے والے تھے
انڈونیشیا کے جزیرے جاوا سے تعلق رکھنے والی 74 سالہ اینے بدریانی ایراوتی کے مطابق ’میرا گروپ تو علی الصبح رمی کے لیے گیا تھا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ وہاں بہت زیادہ رش ہوگا۔ جب ہم کنکریاں مار کر اپنے خیمے کی جانب لوٹ رہے تھے، تب بھی وہاں پیر رکھنے کو جگہ نہ تھی۔‘
’آگے بڑھنا اور سانس لینا دونوں بہت مشکل کام تھے۔ ہر طرف لوگ تھے اور دھکے دے کر آگے بڑھ رہے تھے۔ لوگ گر رہے تھے۔ میں نے ایک انڈونیشئن کو ابتدائی طبی امداد ملتے دیکھی۔ میرے خیال میں زیادہ لوگ گرمی سے نڈھال ہو کر بیٹھ یا لیٹ رہے تھے۔‘
’خدا کا شکر ہے کہ ہم اپنے خیمے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت نو بجے تھے اور ہمیں بعد میں بھگدڑ کا علم ہوا۔ یہ بہت خوفناک ہے۔‘
لوگ دھکے دے رہے تھے
مکہ سے فاطمہ محمد کہتی ہیں: ’میں ہجوم میں تھی اور اکثر لوگ، تقریباً 90 فیصد، پر امن تھے۔ اس کے علاوہ نوجوان بھی تھے اور گرمی بھی بہت بے رحم تھی۔ لوگ چاہتے تھے کہ جلدی جلدی یہ (مناسک) ادا کر لیں، وہ جلدی ختم کرنا چاہتے تھے اور کیونکہ گرمی بڑھ رہی تھی لوگ ایک دوسرے کو دھکے دے رہے تھے۔
’مجھے اس پر یقین نہیں آتا جو وہاں ہوا۔ یہ المناک ہے۔ دن کے آخر میں ہم نے ہاتھ اوپر اٹھائے اور اللہ سے رحم کی بھیک مانگی۔‘
طبی عملہ جائے حادثہ پر پہنچا تو سہی لیکن اس وقت تک سینکڑوں حاجی ہلاک ہو چکے تھے
وہاں پولیس نہیں تھی
نائجیریا کے وین گارڈ اخبار کے فوٹوگرافر لمیدی بامیدیل کہتے ہیں کہ ’میں بھگڈر کے بالکل درمیان میں تھا۔ سعودی عرب کی پولیس اور ٹریفک کنٹرول کرنے والے وہاں موجود نہیں تھے۔ اصل میں تو وہ بھگڈر کے بعد وہاں پہنچے تھے۔ میں وہاں سے صحیح سلامت نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔‘
حدِ نگاہ تک لاشیں ہی لاشیں تھیں
بی بی سی کے بشیر سعد عبداللٰہی نے جائے حادثہ کا منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں جہاں کھڑا ہوں وہ منیٰ شہر کا مرکز ہے۔ مجھے ہر طرف کفنائی گئی لاشیں دکھائی دے رہی ہیں۔ پولیس نے یہ سارا علاقہ بند کیا ہوا ہے اس لیے میں انھیں گن نہیں سکتا لیکن جہاں تک نظر دیکھ سکتی ہے لاشیں ہی لاشیں ہیں۔
’آس پاس کے علاقے میں ہلاک شدگان کے اعزا و اقربا ہیں جبکہ دیگر حصوں میں قیام پذیر حاجی بھی لاشیں دیکھنے اور لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرنے آ رہے ہیں۔
’پولیس کے اہلکار لوگوں کو اس طرف جانے سے روک رہے ہیں جہاں انھوں نے لاشیں اکٹھی کی ہیں۔ وہاں سے صرف ایمبولینسیں آ جا رہی ہیں۔ رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ ایمبیولینسیں وہاں کیا کر رہی ہیں۔ جہاں لاشیں رکھی گئی ہیں اس سارے علاقے پر ہیلی کاپٹر بھی پرواز کر رہے ہیں۔‘
کچھ ایسے بھی تھے جنھیں ان قواعد کی کوئی پروا نہیں تھی
بشیر سعد عبداللہی کے مطابق وہ بھگدڑ مچنے سے چند لمحے قبل ہی جائے حادثہ سے گزرے تھے۔ بھگدڑ سے بچ نکلنے والوں نے انھیں بتایا کہ ’کنکریاں مارنے کے لیے جانے والوں اور وہاں سے آنے والے ہجوم آپس میں ٹکرائے۔ جہاں زیادہ تر حاجی ہدایات کی پیروی کر رہے تھے کچھ ایسے بھی تھے جنھیں ان قواعد کی کوئی پروا نہیں تھی۔‘
لوگ مدد مانگتے رہے، انھیں اٹھانے والا کوئی نہ تھا
بی بی سی کے ایک اور نامہ نگار اور حادثے کے عینی شاہد تچیما الا اسوفو کے مطابق ’لوگ رمی کے لیے جا رہے تھے کہ ان کے سامنے کنکریاں مار کر آنے والے حاجی آ گئے۔ پھر افراتفری کا سماں تھا اور اچانک لوگ گرنے لگے۔
’وہاں نائجیریائی تھے، چاڈ کے لوگ تھے اور سینیگالی بھی۔ ان کے علاوہ دیگر قومیتوں کے لوگ بھی تھے۔ لوگ ایک دوسرے کے اوپر چڑھتے ہوئے محفوظ مقام پر پہنچنے کے لیے کوشاں تھے اور اس وجہ سے بھی کئی لوگ مرے۔
’لوگ اللہ اکبر کے نعرے بلند کر رہے تھے جبکہ بچوں کے علاوہ کچھ بڑے بھی رو رہے تھے۔
’زمین پر گرے ہوئے لوگ مدد مانگتے رہے لیکن انھیں اٹھانے والا کوئی نہ تھا۔ ہر کسی کو اپنی پڑی تھی۔
’ہمارے گروپ کے کچھ ارکان بھی اس بھگدڑ سے متاثر ہوئے۔ میری ایک آنٹی بھگدڑ میں ماری گئیں اور ہمارے گروپ کی دو خواتین اب بھی لاپتہ ہیں۔‘
حادثے کا ذمہ دار کون؟
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سعودی وزیر نے حادثے کا ذمہ دار غیر منظم حاجیوں کو قرار دیا ہے جبکہ عرب ذرائع ابلاغ نے سعودی عرب کے وزیر صحت خالد الفلیح کے حوالے سے کہا ہے کہ حادثہ حاجیوں کے لیے طے شدہ پروگرام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پیش آیا۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی فارس کے مطابق ایک سینیئر رکن پارلیمان نے منیٰ میں بھگدڑ کے واقعے پر سعودی عرب پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں حج کے لیے آنے والے زائرین کے لیے انتظامات کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔
مجلس قومی سلامتی اور خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین علاؤالدین بروجردی نے کہا ہے کہ ’مسلمان ممالک کے رہنماؤں کو سعودی حکومت کی حج انتظامات میں نااہلی پر احتجاج کرنا چاہیے۔‘
واپسی کا راستہ لمبا اور لوگ گرمی سے نڈھال تھے
حادثے کے بعد موقعے پر پہنچنے والے ایک پاکستانی حاجی محمد علی کے مطابق ’میں اپنے مکتب سے جب باہر آیا تو میں نے اپنے سامنے دو لاشیں پڑی دیکھیں۔ جگہ جگہ پانی پڑا تھا اور پولیس اور ایمبولنس کا عملہ اپنا کام کر رہا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گرمی بہت زیادہ تھی اور شیطان کو کنکریاں مار کر واپس آنے کا راستہ بہت لمبا تھا۔ لوگ گرمی سے نڈھال تھے اور پانی بھی آسانی سے دستیاب نہ تھا۔ لوگ انتظامیہ سے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ درمیان والا راستہ کھولیں۔‘
ویل چیئرز استعمال کرنے والے حاجی پھنس گئے
منیٰ میں ہی موجود میں ایک پاکستانی حاجی زاہد علی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ زخمیوں کی تعداد زیادہ لگتی ہے جنھیں درجنوں ایئر ایمبولینس کی مدد سے ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق حادثے کے بعد فوراً رمی کا عمل روک دیا گیا اور حادثے کی جگہ پر جانے والے تمام راستوں کو بند کر دیا گیا۔ حادثے کی جگہ پر بہت سے لوگ خصوصاً ویل چیئرز استعمال کرنے والے حاجی پھنس گئے جنھیں حکام وہاں سے بحفاظت نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھگدڑ مچنے کے بعد منیٰ میں کچھ خیموں میں آگ بھی بھڑک اٹھی تھی تاہم اس پر جلد ہی قابو پا لیا گیا۔