نیویارک : آپ نے بے شمار فلمیں دیکھی ہوں گی مگر اینڈی وائیر کے ناول پر بننے والی دی مارٹین کو اس دور کی سب سے بہترین سائنس فکشن فلم قرار دیا جارہا ہے۔
ہولی وڈ ناقدین کے بقول یہ نہ صرف انٹرسٹیلر، گریوٹی اور اسٹار ٹریک جیسی فلموں سے بہتر ہے بلکہ ان سے بہت زیادہ بڑھ کر ہے کیونکہ اس نے سائنس فکشن کو ایک نئے معیار تک پہنچا دیا ہے۔
ڈائریکٹر ریڈلی اسکاٹ کی اس فلم کی کہانی ایک خلاءباز مارک واٹنی (میٹ ڈینی) کے گرد گھومتی ہے جو مریخ کے سفر پر نکلتا ہے مگر خلائی سفر میں شریک عملہ ایک بڑے مٹی کے طوفان کے بعد اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
جب وہ اپنے خلائی کیپسول نما مشین میں بیدار ہوتا ہے کہ اس کے پاس بس 30 دن تک کا سامان ہے اور زمین سے اس کا رابطہ ہونے کی صورت میں بھی اس تک مدد پہنچنے میں 4 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، ان حالات میں وہ خود کو بچانے کا عزم کرتا ہے اور بچ بھی جاتا ہے۔
اس فلم کو خاص بنانے کی وجہ یہ ہے کہ واٹنی اپنے خلائی کیپسول میں سبزیاں اگاتا ہے اور بہت کچھ ایسا کرتا ہے جس پر یقین کرنا بھی مشکل ہے۔ تاہم سائنس کے ساتھ ساتھ فلم میں میٹ ڈیمن نے اپنے کردار کو ایک عام شخص جیسا ہی رکھا ہے جس سے دیکھنے والوں کو اکتاہٹ نہیں ہوگی اور وہ کہانی کے اس نکتے سے جڑے رہیں گے کہ یہ انسانی عظمت اور جدوجہد کی داستان ہے۔