بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ؛سعودی عرب کے جنرل کمیشن برائے سمعی وبصری میڈیا کو ایک سرمایہ کار نے باضابطہ طور پر ملک میں سینما گھر کھولنے کی اجازت دینے کے لیے درخواست دی ہے۔
العربیہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق کمیشن نے لائسنس کے حصول کے لیے اس درخواست پر اصولی طور پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے اور سرمایہ کار سے مجوزہ منصوبے کے قابل عمل ہونے کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں سینما گھر کھولنے کی ممانعت ہے۔اگر کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ سینما گھروں کے قیام کے لیے سرمایہ کاری کا مجوزہ منصوبہ قابل عمل ہے تو پھر وہ اعلیٰ حکام سے ملک بھر میں سینما گھروں کھولنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے۔
سعودی عرب کی ایک کاروباری ویب سائٹ مآل کے ایڈیٹر انچیف مطلق البوقمی نے العربیہ نیوز کو بتایا ہے کہ ”کمیشن اس سرمایہ کار سے اس ایشو پر مراسلت کررہا ہے۔یہ بہ ذات خود
ایک بہت بڑی پیش رفت ہے”۔
ان کے بہ قول:”سعودی عرب میں سینما گھروں کا قیام ایک ناگزیر چیلنج ہے کیونکہ جو اس تجویز کی مخالفت کررہے ہیں،ان کی آوازیں بہت بلند ہیں۔البتہ اب سعودی معاشرہ تبدیل ہوچکا ہے اور لوگوں کی دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ٹی وی چینلوں تک رسائی ہے۔یہ مطالبہ صرف تفریح کے لیے نہیں ہے بلکہ اس سے معاشی مواقع بھی پیدا ہوں گے”۔
انھوں نے غیر سرکاری رپورٹس کے حوالے سے بتایا کہ ”سعودی شہری ہر سال بحرین اور دبئی میں فلمیں دیکھنے پر ایک ارب ڈالرز سے زیادہ سالانہ اڑا دیتے ہیں اور یہ بہت بڑی رقم ہے”۔
سعودی عرب کے ایک فلم پروڈیوسر اور مسمیر ٹی وی سیریز سے شہرت پانے والے مالک نجر کا کہنا ہے کہ ” سینما گھروں کے قیام سے نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔قومی معیشت میں اربوں ریال کا اضافہ ہوگا اور ملک اپنی ثقافت کو برآمد کرسکے گا”۔
ماہرین معیشت کا بھی کہنا ہے کہ سعودی شہری جو رقوم بیرون ملک فلمیں دیکھنے میں اڑاتے ہیں،ان کو ملکی معیشت کا حصہ بنایا جا سکتا ہے اور اس کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔
مدیر بوقمی کا کہنا تھا کہ ”پہلے لوگ ٹی وی کو مسترد کرتے تھے لیکن اب یہ ان کے لیے تفریح کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔سینما تہذیب وثقافت کا نمائندہ ہے۔مووی تھیٹر سعودی مملکت کی اقدار کے منافی نہیں ہے۔فلموں کی نگرانی اور ان کو ریگولیٹ کرکے انھیں قومی ثقافت سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے”۔
اس سرمایہ کار کی جانب سے سینما کھولنے کے لیے لائسنس کے حصول کی غرض سے درخواست دائر کرنے کے باوجود اس ضمن میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔العربیہ نیوز نے وزارت اطلاعات اور سعودی شوریٰ کونسل کے جن ذرائع سے رابطہ کیا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس موضوع پر مثبت یا منفی پیش رفت کے حوالے سے کچھ بھی نہیں سنا ہے۔