مغربی اتحادی ممالک کی اکثریت شام کے مسئلے کے حل کے لیے بشار الاسد کے عہدے کے ہٹنے کو ضروی خیال کرتی ہے
شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ شام، روس، ایران اور عراق کا اتحاد ضرور کامیاب ہوگا یا پھر پورا خطہ برباد ہو جائے گا۔
’روسی بمباری سے دولتِ اسلامیہ مضبوط‘
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شامی صدارتی اکاؤنٹ پر بتایا گیا ہے کہ صدر بشار الاسد نے یہ بات ایران کے سرکاری ٹی وی کو دیے جانے والے انٹرویو میں کہی۔
اپنے انٹرویو میں انھوں نے امریکی اتحاد اور اس کی جانب سے شام اور عراق میں کی جانے والی فضائی کارروائیوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اس سے دہشت گردی پھیل رہی ہے۔
دوسری جانب روس نے شام میں مزید بمباری کی ہے اور کہا ہے کہ اس نے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
شامی کارکنوں کا کہنا ہے کہ روسی حملوں میں باغی گروہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف بمباری کر رہا ہے
شام کے صدر نے اپنے انٹرویو میں کہا ے کہ روس، شام، ایران اور عراق دہشت گردی کے خلاف متحدہ ہو کر لڑ رہے ہیں اور امریکی اتحاد کے برعکس انھیں ’عملی نتائج‘ حاصل ہوں گے۔
خیال رہے کہ شامی صدر کے خلاف عالمی طاقتیں شام کی خانہ جنگی کے حل کے لیے بشار الاسد کے عہدے سے ہٹنے کو ضروری سمجھتی ہیں تاہم کچھ مغربی ممالک کا خیال ہے کہ اس عبوری دور میں وہ اپنے عہدے پر رہ سکتے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے صدر بشارالاسد کا کہنا ہے کہ’ سیاسی نظام یا شام میں حکام سے بات چیت شام کا اندرونی معاملہ ہے۔
ادھر روس نے کہا کہ اس کے جنگی طیاروں نے اتوار کو دولتِ اسلامیہ کے دس ٹھکانوں کو تباہ کیا۔ جن میں ان کے تربیتی مراکز، اسلحہ کے سٹور اور اسلحہ بنانے والے دھماکہ خیز مواد اور خودکش بیلٹس کے سٹور بھی شامل ہیں۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ روس کی شام میں فوجی مداخلت دراصل ’قاتل‘ صدر بشار الاسد کی حمایت کرنا ہے۔ جبکہ امریکی صدر باراک اوباما کے مطابق بدھ سے شروع ہونے والی روسی فضائی کارروائی سے ’صرف اور صرف شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی پوزیشن مستحکم‘ ہو رہی ہے۔