سری نگر : وادی کشمیر میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین (ایچ ایم) کے اعلیٰ ترین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والے احتجاجی مظاہروں کے نہ تھمنے والے سلسلے پر قابو پانے اور نماز جمعہ کے بعدگذشتہ چھ دنوں کے دوران سیکورٹی فورسز کی کاروائی میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے اور پرامن احتجاجی مظاہرے منظم کرنے سے متعلق علیحدگی پسند قیادت کی مشترکہ اپیل پر عمل درآمد کو روکنے کے لئے وادی بھر میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ جنوبی کشمیر کے چار اضلاع اننت ناگ، پلوامہ، شوپیان اور کولگام اور گرمائی دارالحکومت سری نگر کے بیشتر حصوں میں گذشتہ چھ دنوں سے عائد کرفیو میں مزید سختی لائی گئی ہے ۔ تاہم سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ اور کپواڑہ کو کرفیو سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اِن دو اضلاع کو اگرچہ کرفیو سے مستثنیٰ رکھا ہے ، تاہم اِن میں نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ بذرگ علیحدگی پسند رہنما و حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی، حریت کانفرنس (ع) کے چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے کل اپنے ایک مشترکہ بیان میں ائمہ مساجد اور جمعہ خطیبوں سے جمعہ نماز کے بعد حالیہ دنوں میں ہلاک کئے گئے لوگوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے اور بعد میں عوامی مظاہروں کی قیادت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمانڈر برہان وانی اور اس کے ساتھیوں کی موت کے بعد سرکاری فورسز نے عوامی مظاہروں کے خلاف جس طرح سے طاقت کا بے تحاشا استعمال کرکے 40کے لگ بھگ نہتے شہریوں کو ہلاک اور سینکڑوں کو عمر بھر کے لیے ناخیز اور ناکارہ بنادیا ہے ، وہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کے خلاف ہر سطح پر اور ہر ممکن طریقے سے احتجاج بلند کیا جانا ضروری ہے ۔ برہان اور اُس کے دو دیگر ساتھیوں کو 18 جولائی کی شام ضلع اننت ناگ کے کوکرناگ میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ ایک مختصر جھرپ میں ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کی ہلاکت کے بعد وادی کے اطراف وکناف میں بھڑک اٹھنے والے پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے دوران تاحال 38 افراد ہلاک جبکہ 2 ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ایک سرکاری ترجمان نے بتایا کہ جنوبی کے کولگام، شوپیان، پلوامہ اور اننت ناگ اضلاع کے ضلع مجسٹریٹوں نے اعلان کیا ہے کہ اِن اضلاع میں آج کرفیو نافذ رہے گا۔ خیال رہے کہ وادی میں جاری احتجاجی لہر کے دوران جنوبی کشمیر سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ثابت ہوا جہاں 36 ہلاکتیں ہوئیں۔ اِن میں ضلع اننت ناگ میں سب سے زیادہ 18 ، ضلع شوپیان میں 5 ، ضلع کولگام میں 9 اور ضلع پلوامہ میں 4 ہلاکتیں ہوئیں۔
سرکاری ترجمان نے بتایا کہ وسطی کشمیر کے تینوں اضلاع سری نگر، بڈگام اور گاندربل میں بھی جمعہ کی صبح سے ہی کرفیو نافذ کیا گیا ہے ۔ تاہم شمالی کشمیر کے تین اضلاع میں صرف ضلع بارہمولہ میں ہی کرفیو نافذ کیا گیا ہے ۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ شمالی کشمیر کے باقی دو اضلاع بانڈی پورہ اور کپواڑہ کو اگرچہ کرفیو سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ، تاہم اِن اضلاع میں آج سیکورٹی پابندیاں نافذ رہیں گی۔ ضلع مجسٹریٹوں کی جانب سے جاری کردہ احکامات میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شہری یا گاڑی ماسوائے طبی ایمرجنسی کو کرفیو کے دوران چلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کرفیو کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے ہزاروں ریاستی پولیس اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے اہلکاروں کو وادی بھر میں تعینات کیا گیا ہے ۔ وادی میں بیشتر سڑکوں کو خاردار تار سے سیل کردیا گیا ہے اور پولیس کی گاڑیوں پر نصب لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا جارہا ہے ۔ سری نگر کے ڈاؤن ٹاون ، شہر خاص اور سیول لائنز کے مائسمہ میں 9 جولائی کو کرفیو نافذ کیا گیا تھا، تاہم اب پورے سری نگر کو کرفیوکے دائرے میں لایا گیا ہے ۔یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے جمعہ کی صبح سری نگر کے بتہ مالو اور مائسمہ علاقوں کا دورہ کیا، نے سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کو کرفیو سختی سے نافذ کرتے ہوئے دیکھا۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس کی گاڑیوں پر نصب لاوڈ اسپیکروں کے ذریعے یہ اعلان کیا جارہا تھا ‘حضرات علاقہ میں ضلع مجسٹریٹ کے حکم سے کرفیو نافذ کیا گیا ہے ، اور جو کوئی کرفیو کی خلاف ورزی کرے گا، کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے گی’۔ جنوبی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سبھی چار اضلاع میں کرفیو کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری جمعیت تعینات رکھی گئی ہے – جہاں احتجاجی مظاہرین کرفیو توڑتے ہوئے برہان وانی اور سیکورٹی فورسز کی کاروائی میں ہلاک ہونے والے نوجوانوں کی ہلاکت کے خلاف اور کشمیر کی آزادی کے حق میں احتجاجی مظاہرے منظم کررہے ہیں۔ جنوبی کشمیر کے مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا کہ سیکورٹی فورس اہلکار مکانوں اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں پر نصب لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے اعلان کیا جارہا ہے کہ ‘کرفیو نافذ ہے اور لوگ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں’۔ مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا کہ سیکورٹی فورس اہلکار یہاں تک کہ زخمیوں اور مریضوں کو بھی اسپتال لے جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اِن اضلاع کے رہائشیوں نے کہا کہ انہیں اشیائے ضروریہ بشمول دودھ، سبزیوں، ادویات اور روٹی کی شدید
قلت کا سامنا ہے ۔
اس دوران وادی میں پیدا شدہ کشیدہ صورتحال پر قابو پانے کے لئے جہاں پہلے ہی سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی قریب 20 کمپنیاں( 2 ہزار اہلکار) یہاں بھیجی جاچکی ہیں، وہیں جموں سے کل فوج کی انفینٹری بٹالین کے 1500 اہلکار یہاں بھیجے گئے ۔دفاعی ذرائع نے یو این آئی کو بتایا ‘نگروٹہ کے وائٹ نائٹ کارپس (16 کارپس) کیمپ سے انفینٹری بٹالین کی 1500 فوجیوں پر مشتمل دو کمپنیاں سری نگر روانہ کردی گئی ہیں’۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ فوجی اہلکار سری نگر میں واقع چنار کارپس (15 کارپس) کی ہدایات پر اپنے فرائض انجام دیں گے ۔ انہوں نے بتایا کہ اِن فوجیوں کو یہاں تیار حالت میں رکھا جائے گا اور یہ یہاں صورتحال معمول پر آنے تک موجود رہیں گے ۔ وادی میں گذشتہ چھ دنوں کے دوران احتجاجی مظاہروں میں 38 افراد ہلاک جبکہ قریب 3 ہزار دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ زخمیوں میں سری نگر کے قمرواری کی 5سالہ بچی زہرہ مجید اور جنوبی کشمیر کے بج بہاڑہ کی 80سالہ بزرگ خاتون بھی شامل ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ چھ دنوں کے دوران 110سے زائد شہری آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق اِن میں 90 فیصد کی بینائی بحال ہونا مشکل ہے ۔ پیلٹ کے شکار بیشتر نوجوانوں کا اس وقت سری نگر کے صدر اسپتال میں علاج چل رہا ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق سیکورٹی فورسز کی جانب سے پیلٹ گن کا شکار ہونے والی انشاء ملک جو اس وقت صدر اسپتال میں زیر علاج ہے ، اپنی بینائی کھوچکی ہے ۔ انشاء کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ نویں جماعت کی طالبہ ہے اور ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران زخموں ہونے والے افراد خاص طور پر پیلٹ گن کے متاثرین کے علاج و معالجہ کے لئے قومی راجدھانی نئی دلی اور ملک کے دیگر حصوں سے ماہر جراحوں کی ایک ٹیم یہاں پہنچی ہے ۔دریں اثنا ریاستی حکومت کے ترجمان نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آنے والی متعدد رپوٹوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مسلسل بنیادوں پر انتظامات کا جائزہ لے رہی ہے جن میں خاص طور سے وادی میں حالیہ دنوں زخمی ہوئے افراد کے لئے طبی سہولیات کی فراہمی کے تعلق سے انتظا مات شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ زخمیوں اور مریضوں کو علاج و معالجہ فراہم کرنے کے لئے اسپتالوں میں تمام مطلوبہ سہولیات بشمول طبی ماہرین، نیم طبی عملہ اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے ۔انہوں نے اس سلسلے میں ظاہر کئے گئے خدشات کو رد کیا ہے ۔ ترجمان نے کہا ہے کہ مختلف ایجنسیوں کی جانب سے موصولہ مصدقہ رپوٹوں کے مطابق پچھلے چند دنوں کے دوران امن و قانون کی صورتحال خراب ہونے کے نتیجے میں 31افراد اپنی قیمتی جانیں کھو بیٹھے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مختلف اسپتا لوں میں1640زخمی افراد کا علاج و معالجہ کیا گیا۔اس وقت صرف 198افراد اسپتالوں میں داخل ہیں اور باقی افراد کو یا تو رخصت کیا گیاہے یا پھر ان کے معمولی زخموں کا علاج او پی ڈی میں جاری ہے ۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ 134افراد کو آنکھوں میں زخم آئے تھے اور ان میں سے بیشتر کو ماہرانہ علاج کے بعد اسپتال سے رخصت کیا گیا ہے ۔اس وقت 46ایسے زخمی ایس ایم ایچ ایس اسپتال میں داخل ہیں اور ان کی آنکھوں کا آپریشن کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ پچھلے چھ روز کے دوران وادی کے مختلف اسپتالوں میں276جراحیاں عمل میں لائی گئیں۔اس کے علاوہ اسپتالوں کی انتظامیہ کو مریضوں اور ان کے تیمارداروں کو کھانا مہیا کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ تشدد پر اتر آئے ہجوم کو قابو کرنے کے دوران 1500سے زائد سیکورٹی اہلکار زخمی ہوگئے اور انہیں عالج و معالجہ فراہم کیا گیا ہے ۔