پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن نے ملک کے نامور شاعر احمد فراز کے زیر استعمال کار کو نیلام کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ کار 11 سال ان کے زیر استعمال رہی تھی۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن نے اخبارات میں ’اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں‘ کے عنوان سے نیلامی کی تشہیر بھی کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ احمد فراز کے چاہنے والوں کے لیے ان کے زیر استعمال رہنے والی سرکاری گاڑی حاصل کرنے کا یہ تاریخی موقع ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ تاریخی ورثے کی حامل اس کار کی چابی کامیاب بولی دہندہ کو احمد فراز آڈیٹوریم میں منعقد کی جانے والی پر وقار تقریب میں احمد فراز کے دوستوں اور معروف ادیبوں اور شاعروں کی موجودگی میں دی جائے گی۔
پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد رفیق ناز نے بی بی سی کو بتایا کہ کافی ادیبوں کی یہ رائے تھی کہ یہ کار احمد فراز نے استعمال کی ہے اور اُن کے کئی چاہنے والے ہیں تو اسے ویسے ہی نیلام کرنے کے بجائے اس کی الگ سے نیلامی کا اشتہار دیا جائے۔
پاکستان میں جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں فوجی حکومت کے خلاف شاعری کے الزام میں احمد فراز کو گرفتار کیا گیا، بی بی سی اردو کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا تھا کہ ’پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں‘ نظم کے پاداش میں انھیں گرفتار کیا گیا۔ رہائی کے بعد انھوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی تھی، بعد میں جمہوریت کی بحالی کے بعد وہ وطن واپس آئے تو انھیں پہلے اکیڈمی آف ادبیات کا چیئرمین تعینات کیا گیا اور اس کے بعد نیشنل بک فاؤنڈیشن میں چیئرمین کی ذمہ داریاں دی گئیں
پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد رفیق ناز کا کہنا ہے کہ سرخ رنگ کی ٹیوٹا کرولا کار 11 سال احمد فراز کے زیرِ استعمال رہی اور اس وقت یہ کسی کے استعمال میں نہیں۔
’کمپنی سے ہی اس کی مرمت کرائی جاتی تھی اب اُن کی جانب سے یہ تجویز آئی ہے کہ اس پر لاگت زیادہ آئے گی اسی لیے مرمت کرانے کے بجائے اسے نیلام کردیا جائے۔‘
پاکستان میں اس سے پہلے کسی ادیب یا شاعر کے زیر استعمال اشیا کی نیلامی نہیں کی گئی، بک فاؤنڈیشن کا بھی کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید کسی شاعر یا ادیب کی چیزوں کی نیلامی متوقع نہیں۔
احمد فراز سنہ 2006 تک نیشنل بک فاؤنڈیشن تک چیئرمین رہے بعد میں انھیں سبکدوش کردیا گیا، انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومتِ وقت نے ناراض ہوکر انھیں برخاست کیا تھا جس کے بعد انھوں نے سنہ 2004 میں ملنے والا ہلال امتیاز بھی واپس کردیا تھا۔
اشیا کو تبرکات کا درجہ دینے کے بجائے ان کی تخلیقات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نہیں تو کل حبیب جالب کے اشیا نیلامی کے لیے رکھ دی جائیں پھر کسی اور کے ساتھ یہ ہوگا
ڈاکٹر مبارک علی، تاریخ نویس
پاکستان کے نامور محقق اور تاریخ نویس ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ یہ لوگوں کو جذباتی کر کے ان سے زیادہ سے زیادہ پیسے بٹورنے کی کوشش رہے ہیں۔ وہ اس کو درست نہیں سمجھتے۔
’ اشیا کو تبرکات کا درجہ دینے کے بجائے ان کی تخلیقات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نہیں تو کل حبیب جالب کے اشیا نیلامی کے لیے رکھ دی جائیں پھر کسی اور کے ساتھ یہ ہوگا۔‘
ڈاکٹر مبارک علی احمد فراز کی شخصیت کے نقاد ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس ملک کے اندر ادیبوں اور شعراکے دو طبقات ہیں ایک وہ جو موقع پرست ہیں حکومتوں کے ساتھ رہتے اور فائدہ اٹھاتے ہیں اور گاڑیاں کیا بنگلے سب کچھ رکھ سکتے ہیں دوسرے وہ ہوتے ہیں جو انحراف کرتے ہیں اور تنقیدی نکتہ نگاہ رکھتے ہیں ان کے لیے زندہ رہنا بھی مشکل ہوتا ہے وہ گاڑیاں کہاں رکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق ’احمد فراز نے ضیاالحق کی حکومت سے لیکر سب کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا۔‘