نئی دہلی۔آخر شری رام سینٹر میں منعقد ہونے والا ”پچیسواں اردو ڈراما فیسٹول“ اختتام کو پہنچا۔ منگل کی شام ساڑھے چھ بجے اس فیسٹول کا آخری ڈراما ”ہم تو محبت کرے گا“ پیش کیا گیا۔ ڈراما کے آغاز سے قبل انیس اعظمی سکریٹری اردو اکادمی، دہلی نے ڈراما فیسٹول کی کامیاب پیش کش کے لیے اپنے تمام رفقاءنیز ڈراما کمپنیوں ان کے ہدایت کاروں ، اسکرپٹ رائٹرس اور فن کاروں کے ساتھ پردے کے پیچھے رہ کر ہر ڈرامے کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے والوں کا شکریہ ادا کیا۔اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اکادمی کے وائس چیئرمین پدم شری پروفیسر اخترالواسع نے نہایت بلیغ تقریر میں فرمایا کہ یہ ڈراما فیسٹول مسلسل پچیس برسوں سے انیس اعظمی کی قیادت میں برپا ہو رہا ہے اور یہ بہت کامیاب ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ ملک کی دیگر چودہ اکادمیوں میں دہلی اردواکادمی کی نمایاں کارکردگی کا ثبوت یہ ڈراما فیسٹول تو ہے ہی ساتھ ہی گرمی کی چھٹیوں کے دوران عام لوگوں کے بچوں کا ڈراما ورکشاپ بھی اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے۔
اگر ہم فخر سے کہتے ہیں کہ دہلی اردو اکادمی نے اردو دنیا میں اپنا سب سے نمایاں مقام حاصل کیا ہے تو اس کے لیے سب سے زیادہ تحسین اکادمی کے فعال ایماندار اور محنتی کارکنان کی کی جانی چاہیے۔ پروفیسر موصوف نے کشادہ دلی سے اس بات کا اعتراف کیا کہ اکادمی کا قیام 1981 میں عمل میں آیا تھا اور 1988 سے اس ڈراما فیسٹول کا آغاز ہوا جو پہلے سے چار روزہ ہوتارہا ہے۔ میں اس وقت اکادمی سے متعلق تو نہ تھا لیکن اردو دنیا میں اکادمی کے کارکردگی کا ہمیشہ شہرہ سنتا رہا ہوںاور معتدد تقریبات میں اکادمی کی حسن کارکردگی کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے۔ لیکن انیس اعظمی اس وقت بھی تھے اورآج بھی ہیں۔ مجھے یہ بات کہتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ جن خطوط پر اکادمی کے بزرگوں نے اکادمی کو چلانے کے لیے لائحہ عمل مرتب کیے تھے آج بھی ہم ان بنیادی خطوط کی حفاظت کر رہے ہیں۔ مجھے بے انتہا خوشی اور فخر کا احساس ہوتا ہے جب دوسری ریاستوں یا ممالک غیر میں بھی دلّی اردو اکادمی کی کارکردگی کے چرچے سنتا ہوں۔
پدم شری پروفیسر اخترالواسع نے آخر میں نام بہ نام تمام اہم شرکا و ناظرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا یوں تو آج اس فیسٹول کا آخری ڈراما پیش کیا جارہا ہے لیکن بہت جلد ہم کسی دوسرے ادیب کے شہپاروں کو ڈراما کی شکل میں لے کر پھر حاضر ہوں گے۔
ڈراما فیسٹیول کے دوسرے روز جمعہ4اکتوبرکی شام کرشن چندر کی کہانی ”کالو بھنگی“ کو ”حلال خور“ کے نام سے پیش کیا گیا جس کے ہدایت کار گووند سنگھ یادو تھے جب کہ کہانی کو ڈراما ئی اسکرپٹ میں ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے تبدیل کیا تھا۔ دی ڈرامیٹک آرٹ اینڈ ڈیزائن ایسوسی ایشن کے ذریعہ پیش کیے گئے ڈرامے ”حلال خور“ میں بنیادی کہانی سے زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی تھی اور اصل کہانی کا مرکزی کردار کالوبھنگی ڈرامے میں بھی مرکزی کردار کی حیثیت سے موجود تھا۔ اس کردار میں معروف شاعر وادیب اور اردو پندرہ روزہ پروانہءہند کے مدیر تحسین منور نے اپنی محنت سے جان ڈال دی اور ناظرین نے انھیں بحیثیت کالو بھنگی بے حد سراہا۔کرشن چندر کے کردار میں فلم اداکار وشنو شرما نے اپنی اداکاری اور مکالموں کی ادائیگی کے منفرد انداز سے ناظرین کو باندھے رکھا۔کرشن چندر کی یہ کہانی اُس دور کی ہے جب ہمارے ملک میں سماج پر بورژوا طبقہ پوری طرح حاوی تھا اور طبقاتی کشمکش کا آغاز ہورہا تھا۔ اب حالات میں کسی حد تک تبدیلی آگئی ہے اور ذات و نسل کی جگہ مذہب اور علاقائی عصبیت نے لے لی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے بھی مذہب کی آڑ لے کر پیشے کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کیا جاتا تھا، آج اسی مذہب کی آڑ میں سیاسی بازی گر اپنے اقتدار کی بنیاد مضبوط کررہے ہیں ۔ اس طرح دیکھا جائے تو ”حلال خور“ تمثیلی انداز میں آج کے معاشرے کو بھی آئینہ دکھاتا ہے۔