واشنگٹن: اسامہ بن لادن نے حکیم اللہ محسود کو ارسال کیے گئے ایک خط میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنما کو ایسے اقدامات سے گریز کرنے کا مشورہ دیا تھا جو پہلے سے مشکلات کا شکار جہادی تحریکوں کو مزید تقسیم کردیں۔
بدھ کو امریکا کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر سے 103 دستاویزات جاری کی گئیں، جن میں القاعدہ کے بانی کا وہ
خط بھی شامل ہے، جو انہوں نے 4 دسمبر 2010ء کو حکیم اللہ محسود کو تحریر کیا تھا۔
ان دستاویزات میں سے ایک میں اسامہ بن لادن نے دعویٰ کیا تھا کہ جہادی کاموں میں پاکستان تقریباً خودکفیل ہے۔
انہوں نے لکھا تھا ’’وہاں بہت سے گروپس کام کررہے ہیں، اور مقامی طالبان گروپس جنہوں نے تحریک طالبان یا ہمارے ساتھ شمولیت اختیار کرلی ہے، اور جو ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوئے ہیں، وہ ہمارے ساتھ شمولیت اختیار کرنے والے گروپس سے کم نہیں ہیں۔‘‘
لیکن حکیم اللہ محسود کو تحریر کیا گیا ان کا خط یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اور ٹی ٹی پی کے رہنما دونوں ہی پاکستان میں جہادی تحریکوں کے درمیان اختلافات کے بارے میں اکثر فکرمند رہتے تھے۔
بظاہر اسامہ بن لادن نے حکیم اللہ محسود کے ایک خط کا جواب دیا تھا۔ اس سے پہلے اسامہ بن لادن کو لکھے گئے خط میں ٹی ٹی پی کے رہنما نے ایسے اقدامات کی ایک فہرست ارسال کی تھی، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ تحریک کو منظم کرنے میں مدد دے سکے گی۔
’’ہم اس فہرست کا جائزہ لے رہے ہیں، جو آپ نے ہماری رائے جاننے کے لیے ارسال کی تھی۔ ہم نے پہلے برادر قاری (حسین) کو تحریر کیا تھا کہ وہ اس معاملے سے آپ کو مطلع کریں، لیکن میں نہیں جانتا کہ انہوں نے ایسا کیا یا نہیں۔‘‘
اسامہ بن لادن نے حکیم اللہ محسود کو مشورہ دیا کہ ’’تحریک پر کنٹرول‘‘ حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کا منفی اثر پڑتا ہے اور مطلوبہ نتائج سے یکسر مختلف نتائج پیدا ہوں گے۔
القاعدہ کے رہنما نے ٹی ٹی پی کے اپنے ہم منصب سے کہا کہ ’’اس کی وجہ سے ایسے بہت سے مسائل اٹھیں گے، اب جن کی آپ کو ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے تفصیلی جواب ارسال کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
اس سے پہلے ارسال کیے گئے ایک خط میں قاری حسین نے اسامہ بن لادن کو مطلع کیا تھا کہ جہادی تحریکوں میں ایسے گروپس اور افراد موجود ہیں، جو اختلافات اور داخلی لڑائیوں کا سبب بن رہے ہیں۔
واضح رہے کہ حکیم اللہ محسود اور قاری حسین کے درمیان شدید اختلافات تھے اور ان کے گروپس نے اکثر ایک دوسرے پر حملے بھی کیے تھے۔
امریکی دستاویز سے اشارہ ملتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دونوں رہنماؤں کے درمیان القاعدہ کے رہنما مصالحت کے لیے ثالثی کا کردار ادا کررہے تھے۔
قاری حسین ٹی ٹی پی کے خودکش بمباروں کے اسکواڈ کے منتظم تھے۔ وہ 7 اکتوبر 2010ء کو بظاہر ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
اسامہ بن لادن نے حکیم اللہ محسود کے نام تحریر کیے گئے خط میں تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے قاری حسین کو ایک تفصیلی خط بھیجنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوسکا، کیونکہ قاری حسین ہلاک ہوگئے تھے۔
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت بھی یکم نومبر 2013ء کو ایک امریکی ڈرون حملے میں ہوئی تھی۔
یہ خطوط اور دیگر دستاویزات، اس دستاویز کا حصہ ہیں، جسے امریکی حکام ’’قیمتی خزانہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان دستاویزات کو امریکی سپاہیوں نے 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر حملے کے دوران اپنے قبضے میں لی تھیں۔
القاعدہ کے بانی اس حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
بے نقاب کی جانے والی اس دستاویزات میں اسامہ بن لادن کے قریبی رشتہ داروں کے خطوط جو انہوں نے ایک دوسرے کو تحریر کیے اور القاعدہ کے سربراہ اور ان کے نیٹ ورک کے دیگر اراکین کے درمیان اور پاکستان، افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ میں دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے درمیان ہونے والی خط وکتابت بھی شامل ہے۔
امریکی انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ نے انگریزی زبان کی کتابوں، تھنک ٹینک کی رپورٹوں اور امریکی حکومت کی دستاویزات پر مشتمل اسامہ بن لادن کے ڈیجیٹل مجموعے کی ایک فہرست بھی جاری کی ہے، جن کی کل تعداد 266 ہے۔
اس میں تاریخ کی کتابیں، باب وڈورڈ جیسے امریکی صحافیوں کی جنگی رپورٹیں، فوجی پالیسی کے تجزیوں اور اسلامی عقائد پر مبنی مضامین بھی شامل ہیں۔
یہ دستاویزات امریکی صحافی سیمور ہرش کے تحریر کردہ 10 ہزار الفاظ پر مشتمل ایک تحریر کے ایک ہفتے بعد جاری کی گئیں ہیں۔ سیمور ہرش نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکی حملے کے حوالے سے سرکاری نکتہ نظر پر سوالات اُٹھائے تھے۔
پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسند تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کا کہنا تھا کہ ’’تمام تحریکوں کا منبع (القاعدہ)‘‘ کو مقامی اور غیرملکی افراد کی حمایت حاصل ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہمارے پاس عرب، ازبک، ترک، ترکستان، بالکن، تمام قسم کے روسی، جرمن اور دیگر اقوام کے لوگ ہیں۔بدقسمتی سے اس بنیاد پر بہت زیادہ انتشار موجود ہے۔‘‘
اسامہ بن لادن نے لکھا تھا ’’ہمارے جہادی میدانوں میں کچھ غیرملکیوں کے ساتھ خاص طور پر عربوں میں یہ بھی ایک مسئلہ ہے ، ہم بلاجواز تقسیم اور اتحادوں کا شکار ہیں،جنہیں میں جعلی کمانڈنٹ کہتا ہوں۔‘‘
انہوں نے لکھا تھا کہ ’’وہ سب سے بڑا خطرہ جس سے پاک افغان خطے میں عسکریت پسندوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جاسوسی جنگ اور جاسوسی طیاروں کا مسئلہ ہے۔‘‘
’’اس سے دشمن کو بہت فائدہ پہنچا ہے اور اس کا نتیجہ بہت سے جہادی کارکنوں، رہنماؤں اور دیگر لوگوں کی ہلاکت کی صورت میں نکلا ہے۔‘‘
جولائی 2010ء کے دوران اسامہ بن لادن نے القاعدہ کی یمن شاخ کو بھیجے گئے ایک خط میں زور دیا تھا کہ یہ گروپ حکومت کے ساتھ پُرامن رہے اور امریکا پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔
انہوں نے دلیل دی تھی کہ ’’امریکا کے اندر اور اس کے بیرونی مفادات خاص طور پر تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں حملوں پر توجہ مرکوز کرنے کا مقصد عوامی رائے عامہ کو متحرک کرنا اور امریکا کو افغانستان اور عراق سے انخلاء پر مجبور کرنا ہے۔‘‘
انہوں نے عربوں کو ایرانی انقلاب سے سبق سیکھنے پر بھی زور دیا۔ جن کے رہنماء شہنشاہ ایران کی حکومت سے ملک کو مکمل طور پر آزاد کرانے تک ڈٹے رہے۔