اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پہلی مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ ان کی فوج شام میں آپریٹ کر رہی ہے۔ شام کی ایران نواز حکومت داعش سمیت دوسرے باغیوں سے نبرد آزما ہے۔
شمالی اسرائیل کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ “ہم شام میں کبھی کبھار آپریشن کرتے رہتے ہیں تاکہ اسے ہمارے خلاف محاذ بننے سے روکا جا سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم شام سے اسلحہ، بالخصوص مہلک ہتھیاروں، کی لبنان ترسیل روکنے کے لئے ہرممکن اقدام کرتے ہیں۔
نیتن یاہو نے اس ضمن میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ تنازعات میں گھرے ملک شام میں اسرائیلی سرگرمی کا اعتراف عوامی سطح پر کسی بھی صہیونی رہنما کا یہ پہلا اعتراف ہے۔
حالیہ مہینوں کے دوران مبینہ طور پر شام سے ایرانی اسلحے کی لبنان منتقلی کی کوشش کرنے والے قافلوں پر پراسرار فضائی حملے کئے گئے تھے جن کی ذمہ داری کسی ملک نے قبول نہیں کی تھی۔ یہ اسلحہ مبینہ طور پر ایرانی حکومت کی جانب سے اسرائیل کی خطے میں دشمن تنظیم حزب اللہ کے لئے فراہم کیا جا رہا تھا۔
حالیہ چند مہینوں کے دوران شام سے ایرانی اسلحہ کی مبینہ طور پر لبنانی حزب اللہ کو ترسیل کی کوششوں کو اسرائیل نے نشانہ بنایا تھا، تاہم اسرائیلی حکام نے اس حملوں کا سرکاری سطح پر اعتراف نہیں کیا۔ اسرائیل شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا مخالف ہے مگر اس نے مارچ 2011ء سے جاری خانہ جنگی میں حصہ ڈالنے سے گریز کیا ہے۔
شامی صدر کے اتحادیوں میں روس اور ایران بھی شامل ہیں۔ ماسکو نے ستمبر کے اواخر سے میں بشار الاسد کے مخالفین اور دولت اسلامیہ عراق و شام ‘داعش’ کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کی تھیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع موشے یعلون نے کہا تھا کہ ایک روسی جنگی طیارہ اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہوا مگر یہ معاملہ بغیر کسی تنازع کے حل کر لیا گیا تھا۔ یعلون کا کہنا تھا کہ “یہ واقعہ گولان کی پہاڑیوں پر پرواز کرنے والے پائلٹ کی غلطی کی وجہ سے پیش آیا تھا جسے فوری حل کر لیا گیا تھا۔”
یعلون کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور روس نے شام میں کارروائیوں پر تنازعات سے بچنے کے لئے تیاری کر رکھی ہے جس میں حکام کے درمیان ہاٹ لائن کا قیام اور معلومات کا تبادلہ شامل ہے۔