دبئی ۔ اسرائیلی افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل بینی گانٹز نے مبینہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ ان کے خفیہ ادارے ایران میں تخریبی کارروائیوں اور ایٹمی سائنسدانوں کے قتل میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اسرائیل کے کسی اعلٰی عہدیدار کی جانب سے یہ اعتراف پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔ ماضی میں ایران کی جانب سے مختلف تخریبی کارروائیوں اور ایٹمی سائنسدانوں کے قتل کے الزامات اسرائیل پر عائد کیے جاتے رہے ہیں مگرصہیونی ریاست نے انہیں کبھی بھی درست تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی خود سے کسی کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اسرائیلی آرمی چیف نے طلباء کے ساتھ ہونے والے ایک مکالمے میں کھل کر کہا ہے اسرائیلی خفیہ ادارے ایران کے ایمٹی پروگرام کو ناکام بنانے کے لیے تہران کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ ان کارروائیوں میں ایٹمی سائنسدانوں کی قاتلانہ حملوں میں ہلاکت، بم دھماکے اور سائبرحملے شامل ہیں۔
جنرل بینی گانٹز نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کے خفیہ ادارے ایران کے علاوہ کئی دوسرے دشمن ممالک کے خلاف بھی سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “میں ایران کی بات کر رہا ہوں جہاں حال ہی میں اور عرصہ پہلے تہران کی ایٹمی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے لیے کاررروائیاں کی گئی تھیں، اب یہ معاملہ فوج کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں رہا ہے۔ فوج اور خفیہ ادارے ایران کے جوہری پروگرام پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے”۔
خیال رہے کہ ایران میں گذشتہ چند برسوں کے دوران اہم ایٹمی سائنسدان پراسرار طو پر ہلاک ہوتے رہے ہیں۔ ایران کی جانب سے ان واقعات کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی جاتی رہی ہے مگر اب تک اسرائیل بیرون ملک کہیں بھی کارروائی سے انکاری رہا ہے۔ ایٹمی سائنسدانوں کے قتل کے پے در پے واقعات کے بعد تہران کا جوہری پروگرام سست روی کا بھی شکار ہوا ہے۔
ایران کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں مقتول ایٹمی سائنسدانوں کی فہرست بھی جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2007ء میں اردشیر حسن بور، مسعود علی محمدی اور ماجد شہراری، سنہ 2010ء میں درویش رضا نژاد، 2011ء میں مصطفیٰ احمدی روشن اور سنہ 2012ء میں بھی کئی اہم ایٹمی سائنسدان اور محققین پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کے ایٹمی پروگرام میں تاخیر کی ایک بنیادی وجہ اسرائیل کی مسلسل مداخلت ہے۔ اسرائیل نے خفیہ طور پر تہران کے جوہری پروگرام کو روکنے یا اسے سست کرنے کے لیے غیر معمولی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اسرائیلی خفیہ ادارے ان فرموں اور کمپنیوں کو فنڈز فراہم کر رہے ہیں جو ایران کو جوہری مواد فروخت کرتی ہیں۔ یہ مواد نہایت ناقص ہوتا ہے جس کی تیاری میں نہ صرف بہت زیادہ وقت صرف ہو رہا ہے بلکہ بعض اوقات انہی کمپنیوں کے توسط سے ایٹمی تنصیبات میں دھماکے کرا دیے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں معاونت کرنے والی بعض کمپنیاں براہ راست اسرائیلی خفیہ اداروں سے رابطے میں ہیں جو ایرانی جوہری پروگرام کی مخبر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ایران نے ایک زمین دوز ایٹمی ری ایکٹر کے اوپر فٹ بال کا گراؤنڈ بنا دیا تاکہ عالمی معائنہ کاروں کو اس سے دور رکھا جاسکے لیکن کسی فرم نے اس کا بھانڈہ پھوڑ دیا تھا۔
اس کےعلاوہ سائبر حملوں کے ذریعے بھی ایران کے جوہری پروگرام کو سست روی کا شکار کرنے کی کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔ اسرائیلی سائبر ماہرین کی جانب سے تیار کردہ “سٹکس نیٹ” اور “فلائم” نامی دو وائرس ایرانی ایٹمی تنصیبات کے کمپیوٹر سسٹم میں داخل کیے گئے جن کے نتیجے میں تہران کو غیر معمولی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔