اطلاعات کے مطابق اسرائیل رواں برس کم سے کم تین بار شام میں میزائل حملے کر چکا ہے
ایک امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے جنگی طیارے نے شام کے ساحلی شہر لاذقیہ پر میزائل داغے ہیں۔
امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ اس حملے میں روسی ساخت کے میزائلوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو مبینہ طور عسکریت پسند گروہ حزب اللہ کے لیے لائے جا رہے تھے۔
لاذقیہ شامی صدر بشارالاسد کا مضبوط گڑھ تسلیم کیا جاتا ہے جہاں علوی برادری اکثریت میں ہے اور صدر اسد کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے۔
کلِک اسرائیلی فضائی حملے کا جواب دیں گے: بشارالاسد
کلِک بشارالاسد کی فتح کے لیے سرگرم رہیں گے:حزب اللہ
اطلاعات کے مطابق اسرائیل کی جانب سے شام پر رواں برس کم از کم تین میزائل حملے کیے جا چکے ہیں اور صدر بشارالاسد نے کہا تھا کہ اگر آئندہ اسرائیل نے ایسا کوئی حملہ کیا تو شام جوابی کارروائی کرے گا۔
حالتِ جنگ
شام اور اسرائیل سنہ 1948 سے حالتِ جنگ میں ہیں۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد سے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس نے سنہ 1981 میں اس علاقے کو اپنی عملداری میں شامل کر لیا جسے عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ ’دفاعی فضائی فوج کے اڈے سے کئی دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں‘۔
اب تک ان اطلاعات پر نہ ہی شام اور نہ ہی اسرائیل نے کوئی بیان دیا ہے تاہم امریکی اہلکار نے بتایا ہے کہ یہ حملہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ہوا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل مسلسل کہتا رہا ہے کہ اگر خطے میں شامی ہتھیار کسی بھی عسکریت پسند گروہ خاص طور پر حزب اللہ کو فراہم کیے گئے تو وہ کارروائی کرے گا۔
شام میں صدر اسد کے خلاف بغاوت دو ہزارگیارہ میں شروع ہوئی تھی۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس خانہ جنگی میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بیس لاکھ افراد نے نقل مکانی کی ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد اسرائیل پر باغیوں سے تعاون کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن انھوں نے اس بارے میں ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔
“میں امید کرتا ہوں کہ وہ جو ہمیشہ ہمارے بارے میں منفی رائے رکھتے رہے ہیں اپنی سوچ تبدیل کریں گے اور سمجھیں گے کہ شام ماضی، حال اور مستقبل ہر وقت ایک ایسا ساتھی ہے جس کی سوچ تعمیری ہے۔”
فیصل مقداد،شامی وزیر
واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان کئی بار فائرنگ کا تبادلہ ہو چکا ہے۔
شام اور اسرائیل سنہ 1948 سے حالتِ جنگ میں ہیں۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد سے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس نے سنہ 1981 میں اس علاقے کو اپنی عملداری میں شامل کر لیا جسے عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔
یہ حملہ اس وقت ہوا ہے جب کیمیائی ہتھیاروں کے مشن او پی سی ڈبلیو نے رپورٹ جاری کی ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیار بنانے والے آلات مقررہ مدت سے ایک دن قبل ہی تلف کر دیے گئے ہیں۔
اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد شام کے نائب وزیرِ خارجہ فیصل مقداد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شامی حکومت تعاون کر رہی ہے اور مشرقِ وسطیٰ کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میں امید کرتا ہوں کہ وہ جو ہمیشہ ہمارے بارے میں منفی رائے رکھتے رہے ہیں اپنی سوچ تبدیل کریں گے اور سمجھیں گے کہ شام ماضی، حال اور مستقبل ہر وقت ایک ایسا ساتھی ہے جس کی سوچ تعمیری ہے۔‘