تہران، 17 فروری(یو این آئی) حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصراللہ نے عالم اسلام کو متحد ہونے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی ممالک میں جاری تشدد اور خونریزی سیصرف اسرائیل کو فائدہ پہونچ رہا ہے۔حسن نصر اللہ نے کل اپنی ایک تقریر میں عرب ریاستوں پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں جاری جنگ کا مزید حصہ نہ بنیں۔ انہوں نے عہد کیا ہے کہ اگر سنی سیاسی قوتیں شام کو اس کے حال پر تنہا چھوڑ دیں اوِراگرعرب سیاسی قوتیں شامی تنازعے میں مداخلت سے باز آ جاتی ہیں تو حزب اللہ کے جنگجو بھی اس شورش زدہ ملک کو خیر باد کہہ دیں گے۔ حسن نصر اللہ کی یہ تقریر بظاہر لبنانی سیاستدان سعد حریری کی اس تقریر کاجواب معلوم ہوتی ہے، جس میں حریری نے زور دیا تھا کہ وہ اپنے سنی فرقے میں پائی جانے والی عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے کوشش کریں گے۔ جمعے کے دن حریری نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ البتہ حزب اللہ بھی شام میں اپنی مداخلت ختم کر دے تاکہ فرقہ ورانہ ہولو کوسٹ‘ سے بچا جا سکے۔خیال رہے کہ شامی صدر بشار الاسد کی فورسز گزشتہ برس حزب اللہ کے جنگجوؤں کی مدد سے باغیوں کو پسپا کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں اور اب دمشق کے نواح میں واقع وسطی شام کے زیادہ تر علاقوں کے علاوہ لبنان سے ملحقہ سرحدی علاقوں پر بھی شامی فوج کو کنٹرول حاصل ہو چکا ہے۔
سنہ 2006 میں جب ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا تو ایران چلے گئے۔ لیکن دو سال بعد ان کی مہدی آرمی وزیرِاعظم نوری المالکی کی زیرِ سرپرستی عراقی فوج کے خلاف برسرِ پیکار ہوئی۔اس دوران ان کی ملیشیا کے بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کے گروپ نے کہا کہ وہ ہتھیار ڈال کر اپنی تنظیم ختم کر رہے ہیں۔بعد میں مقتدیٰ الصدر نے وزیرِاعظم نوری المالکی کے ساتھ صلح کر لی اور سنہ 2010 میں دوبارہ وزیرِاعظم بننے میں ان کی مدد کی۔ انتخابات کے بعد ان کا گروپ نئی حکومت کے قریب رہا اور متعدد وزارتیں بھی حاصل کی۔مقتدیٰ الصدر سنہ 2011 میں خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے عراق میں واپس آ گئے اور زیادہ مفاہمتی انداز اپنانے ہوئے عراق میں یک جہتی اور امن پر زور دیتے رہے
.40 سالہ مقتدیٰ الصدر کی حالیہ برسوں میں عراق کے وزیرِ اعظم نوری المالکی کے ساتھ کئی امور پر اختلافات سامنے آئے ہیں۔نوری المالکی اپریل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے دوبارہ وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں جن کی مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے کھل کر مخالفت کی ہے۔انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ اپنے تمام دفاتر بند کر رہے ہیں اور صرف خیراتی کاموں کے لیے چند دفاتر کو چلایا جائے گا۔مقتدیٰ الصدر ایک شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے اور 11 سال پہلے صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کی تقریروں اور انٹرویو سے ملک میں امریکہ کے خلاف لوگوں میں شدید ناراضگی پیدا ہوئی۔ان کی وفادار شیعہ ملیشیا مہدی آرمی نے سنہ 2003 سے امریکہ کے خلاف بیشمار لڑائیاں لڑیں جس کی وجہ سے امریکہ نے اسے عراق میں عدم استحکام پھیلانے والی قوت قرار دیا تھا۔تاہم مقتدی صدر کی ملیشیا پر سنہ 2006 اور 2007 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران سنی مسلمانوں کو اغوا کرنے، ان پر تشدد کرنے اور انھیں ہلاک کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔