:::ناب ہاشم اور جناب عبداللہ کو یہودیوں نے زہر دیا تھا،اسلام کو بدنام کرنے میں یہودیوں کی سازشوں کا اہم کردار لکھنو ۴۲ جنوری: نماز جمعہ کے خطبہ میں ہزاروں نمازیوں کو خطاب کرتے ہوئے امام جمعہ مولانا سید کلب جواد نقوی نے سیرت رسول پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ”اسلام کو سب سے زیادہ جس قوم نے بد نام کیا وہ یہودیت ہے ۔جبکہ انکی مذہبی کتابو ں میں آمد رسول اسلام سے متعلق واضح نشانیاں موجود تھیں مگر انکے علماءنے ان نشانیوں کو عوام کے سامنے پیش نہیںکیا کیونکہ اس طرح انکی مسندوں کو خطرہ لاحق تھا ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ اس تگ و دو میں رہے کہ کسی طرح ختمی مرتبت کے وجود کو اس دنیا میں ظاہر نہ ہونے دیاجائے ۔مولانا نے کہا کہ ”آج بھی جناب ہاشم ؑ کی قبر مطہر غزہ میں موجود ہے ۔جبکہ غزہ اور مکہ میں کئی سو میل کا فاصلہ ہے مگر جس وقت جناب ہاشم ؑ غزہ میںتجارت کی غرض سے تشریف لائے تو ان لوگوں نے پہچان لیا کہ نور رسالت کا ظور آپ ہی کی نسل میں ہوگا لہذا ان لوگوں نے آپ کو غزہ ہی میں زہر دیدیا مگر غزہ میں آنے سے قبل ہی آپ نے عقد فرمالیا تھا اور اسی عقد کی وجہ سے جناب شیبہ عالم وجود میں آئے ۔جناب شیبہ کی والدہ نے کئی برس تک آپ کو لوگوں سے چھپاکر رکھا ۔اسی لئے جب جناب مطلب آپکو ایک عرصہ کے بعد مکہ لیکر آئے تو لوگوں نے یہ سمجھا کہ مطلب کوئی غلام لیکر آئے ہیں اور جناب شیبہ کو عبد المطلب کے لقب سے پکار نا شروع کیا ۔یہ وہی عبد المطلب ہیں جنکے زمانے میں خانہ کعبہ پر ابرہہ حملہ کرنے آیا تھا ۔جناب شیبہ سے جناب عبداللہ عالم ظہور میں آئے مگر دشمنوں نے آپکی پیشانی میں نور رسالت کو جلوہ گر دیکھا تو شادی کے صرف دو ماہ بعد ہی آپ کو زہر سے شہید کردیا ۔
مولانا نے اپنے بیان میں آگے کہا کہ ” یہودیت کی انہی سازشوں کی بنیاد پر جناب عبد المطلب نے رسول اسلام کو جناب ابوطالب کے حوالے کیا اور پھر آپ نے ہی رسول خدا کی تربیت فرمائی ۔جناب ابوطالب نے اس طرح حفاظت رسول کی کہ وہ کھانا جو رسول کے لئے پکتاتھا جب تک آپ اس کھانے کوتناول نہیں فرمالیتے تھے رسول اسلام کو کھانے نہیں دیتے تھے ۔رات میں سوتے وقت بھتیجے کا بستر تبدیل کرتے رہتے تھے تاکہ دشمن محمد رسول اللہ تک رسائی حاصل نہ کرسکیں ۔یہی نہیں بلکہ اپنے بھتیجے کی جگہ اپنے بیٹوں کو سلادیتے تھے ۔اگر ابوطالب صرف رسول کا بستر تبدیل کردیتے اور کسی کو نہ بھی سلاتے تو دشمن خالی بستر دیکھ کر پلٹ جاتے مگر بیٹوں کو آپکی جگہ لٹانے کامقصد پیغمبر خداکے لئے فلسفہ جذبہ ¿ قربانی کی بہترین مثال ہے ۔
مولانا نے اسلام کی نشر و اشاعت سے متعلق جبر و اکراہ کی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے کہا کہ ”دشمنان اسلام اور دشمنان رسول نے ہی یہ غلط فہمی لوگوں میں عام کی کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ۔لیکن یہ سراسر غلط ہے ۔اسلام در اصل اعجاز کردار رسول سے پھیلا ہے ۔اسکی مثال یہ ہے کہ ایک دیہاتی عرب اپنے اونٹ فروخت کرنے کے لئے مکہ آیا تو ابو جہل نے اس سے وہ اونٹ خرید لیا مگر اس کی قیمت دینے سے انکار کردیا ۔وہ دیہاتی ابو جہل کے پیچھے پیچھے فریاد کرتا ہوا آیا کہ اسکا سب کچھ یہی اونٹ ہے مگر ابو جہل نے اسے قتل کی دھمکی دیکر واپس کردیا ۔وہ دیہاتی حیران و پریشا ن خانہ کعبہ کے قریب آیا جہاں سب مکہ کے سربر آوردہ افراد بیٹھے تھے ۔اس نے اپنی روداد سنائی تو مکہ کے سرداروں نے خانہ کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے رسول اللہ کی طرف شرارتا اشارہ کیا کہ محمد کے ابو جہل سے بہت اچھے تعلقات ہیں تم ان سے سفارش کرو تو تمہیں تمہارا اونٹ مل جائیگا ۔وہ دیہاتی رسو ل اسلام کے پاس آکر گڑ گڑا نے لگا اور اپنا واقعہ بیان کیا ۔رسول اس دیہاتی کو لیکر ابو جہل کی گھر آئے تو آپ کو دیکھ کر ابو جہل کی اس قدر مرعوب ہوا کہ کہنے لگا ” محمد آپنے کیوں زحمت کی ہے ؟اور آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں “ آپ نے اس دیہاتی کے اونٹ کے متعلق سوال کیا تو ابو جہل نے اقرار کیا کہ ہاں میں نے وہ اونٹ اس سے لیاہے مگر قیمت نہیں دی ۔اآپ نے فرمایا کہ میں بس یہی چاہتا ہوں کہ تو اس دیہاتی کے اونٹ کی قیمت ادا کردے ۔ابو جہل فورا گھر میں آیا اور اونٹ کی پور ی قیمت اسے ادا کردی ۔رسول اسلام نے ابو جہل کو تنبیہ کی کہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے اور کسی کو پریشا ن نہ کرے ۔ابو جہل نے وعدہ کیا اور رسول اسلام واپس آگئے ۔مکہ کے سرداروں کو جب یہ معلوم ہوا کہ ابوجہل محمد کو دیکھکر مرعوب ہوگیا تو انہیں حیرت ہوئی ۔کچھ دیر نہ گذری تھی کہ ابو جہل بھی وہیں آگیا تو لوگوں نے اس سے سوال کیا کہ آخر تم تو محمد کے دشمن تھے مگر انہیں دیکھکر اس قدر خوفزدہ کیوں ہوئے کہ وہ جو کچھ کہتے گئے تم سر تسلیم خم کئے قبو ل کرتے گئے ۔ابو جہل نے کہا کہ میں خود بھی حیران ہوں کہ جب محمد میرے پاس آئے تو میرا خود پر سے اختیار ختم ہوگیا اور جو وہ کہتے گئے میں کرتا گیا ۔اب وہ لوگ بتائیں جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا کہ آخر جب رسول نے روحانی طاقت کی بنیاد پر دیہاتی کے اونٹ واپس کروادیے اسی وقت آپ اس سے کہتے کہ کلمہ پڑھ لے تو کیا وہ نہ پڑھ لیتا ؟ مگر چونکہ اسلام میں جبر و اکراہ کی گنجائش نہیں ہے اور اسلام حالت اختیار میں کلمہ کو قبول کرتاہے لہذا رسول اسلام نے اس وقت اس سے کلمہ نہیں پڑھوایا ۔یہ بھی یہودیت کی سازش تھی تاکہ اسلام کی مقبولیت کم ہوسکے ۔
جاری کردہ
فراز نقوی
مجلس علماءہند لکھنو