جاوید عباس رضوی
واقعہ کربلا بلا شک و شبہہ ایک ایسا عظیم سانحہ ہے کہ جس نے تاریخِ بشری میں ایک نیا و تابناک باب پیدا کردیا اور اہل ِدنیا کو زندگی کے عظیم اقدار سے آشنا کیا۔اور ساتھ ہی ساتھ انسانی فضائل کی حفاظت اورظلم و استبداد کو نیست و نابود کرنے کے لئے لوگوں کے اندر ظلم و ستم سے ٹکرانے کا حوصلہ و جذبہ پیدا کردیا اور اب اس قربانی کا اثر پوری عالم انسانیت پر چھا گیا ہے اب کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں اس انقلاب کی شعاعیں نہ پہونچی ہو۔بقول صابرؔ
زمین ،چاند ،ستاروں پہ ، آسمانوں پر
کہاں کہاں نظر آتا ہے کربلا کا اثر
بکھر ہی جاتا یہ انسانیت کا شیرازہ
نہ ہوتا دہر میں گر شاہ ِدوسرا کا اثر
آج دنیا کا ہر باشعور انسان کربلا کے بہادروںسے سبق سیکھتا ہے اور شجاعت کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا ہے اور اپنے وجود کو ڈوبنے سے محفوظ رکھتا ہے۔کربلا کے عظیم واقعہ کا احساس آج بھی لاکھوںدلوں کو خون کے آنسو رُلاتا ہے صدیاں گذرنے کے بعد بھی اس کا اثر آفرین و دلخراش ہے جس نے بھی اس عظیم واقعہ کو پہچان لیا اس نے سر تسلیم خم کردیا ہمیںبھی اگر اپنے وجود کو سنورنا ہوگا تو امام حسین ؑ کے نقش ِپا پر چلنا ہوگا۔
صرف اور صرف واقعہ کربلا ایسا واقعہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت و اہمیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔کتابیںلکھیں جارہی ہیں ،واقعات بیان کئے جارہے ہیںلیکن اصل ہیئت ابھی تک قائم و دائم ہے۔لیل و نہار کی ہزار گردشیں بھی اس حقیقت کو متاثر نہیں کر پا رہی ہے۔عزاداری پر قدغن لگائے جارہے ہیں ،مبلغین و ذاکرین کو حراساں کیا جارہا ہے،جلوسوں پر بم گرائے جاتے ہیں ،ماتمی جلسوں پرپابندیاں لگائی جاتی ہیں اور مظلوم عوام کو ظلم و ستم کے شکنجے کا شکار بنایا جاتا ہے لیکن دشمن کی تمام تر سازشیں ناکام ہوتی جارہی ہیں ۔اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔چنانچہ اس سلسلہ میں امام زین العابدین کا فرمان ہے کہ :ذکر مصائب سے ہر سننے والے کو امام حسین ؑ سے ایک قلبی لگائو پیدا ہوتا ہے اور آپ سے عشق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور آپ کے ذکر کو مٹا نے کی سازش ناکام نظر آتی ہے۔
کیوں نہ ہو جو کام خالص اللہ کے لئے ہوا کرتا ہے اللہ اسے لافانی قرار دیتا ہے اسی طرح واقعہ کربلا تحریک میں بدل کر آج بھی قائم و دائم،تر و تازہ اور زندئہ جاوید ہے اور اس کا دائرہ وسیع تر ہوتاجارہا ہے۔امام حسین ؑ فرماتے ہیںکہ میں عام لوگوں کی مانند نہیں ہوں کہ میرا قیام اور میرا انقلاب اس مقصد سے ہو کہ میں خود کوئی فائدہ حاصل کرسکوں یا مال و دولت جمع کر لوںیا سلطنت کرلوں بلکہ میرا قیام خالص اللہ کے دین کیلئے ہے آج سے دنیا کے لوگوںکو یہ بات جان لینی چاہئے۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ میرا خروج نہ تو کسی خود پسندی ،نہ تو اکڑ،نہ فساد اور نہ ہی ظلم کیلئے ہے میں تو صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کیلئے خروج کرتا ہوں۔میں امر بالمعروف و نہی از منکر کرنا چاہتا ہوںاور اپنے جد محمد رسول اللہ ؐاور اپنے باپ علی ابن طالب ؑکی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں۔اے اللہ میں تیرے مظلوم بندوں کیلئے امن وامان قائم کرنا چاہتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ تیرے فرائض و سنن اور احکام پر عمل کیا جائے۔اے اللہ جس نے تجھے کھودیا اسکو کیاملا؟اور جس نے تجھ کو پا لیا کون سی چیز ہے جس کو اس نے نہیںحاصل کیا؟جو بھی تیرے بدلے میں جس پر بھی راضی ہوا،وہ تمام چیزوں سے محروم ہوگیا۔(دعائے معرفت)
امام حسین ؑ اور ایک جگہ پر فرماتے ہیں کہ :کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہورہا ہے اور باطل سے دوری نہیںہورہی ہے بلکہ باطل کی پشتبانی کی جارہی ہے ایسی صورت میں مومن کیلئے لازم ہے کہ لقائے الہی کیلئے قیام کرے اور اس کی جانب رغبت کرے۔اس لئے میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت ،ننگ و عار سمجھتا ہوں ۔
اے کربلا کی خاک تو اس احسان کو نہ بھول