نئی دہلی : نائب صدر جنہوریہ محمد حامد انصاری نے آج کہا کہ ہندستان کے چودہ فیصد مسلمان جو ملک کی 180 میلن آبادی کا حصہ ہیں، انڈونیشیا کے بعد دنیا میں اسلام کے پیروکاروں کی دوسرے سب سے بڑے قومی گروپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام کی تہذیب و ثقافت میں ان کی خدمات تذکرے کی محتاج نہیں ۔
یہاں “آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے گولڈن جوبلی اجلاس “کا آج افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندستانی مسلمان برطانوی حکومت کے خلاف آزادی کی جدوجہد کا ایک لازمی حصہ تھے ۔ یہ ملک بھر میں آباد ہیں اور ملک کی رنگا رگ تہذیب کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگست 1947 ءمیں ہندستان کی آزادی سے پہلے اور بعد کے واقعات،نے ہندوستانی مسلمانوں کو جسمانی اور نفسیاتی عدم تحفظ کے حوالے سے متاثر کیا۔ملک کی تقسیم کے نتیجے میں انہیں سیاسی واقعات اور سمجھوتے کا غیر منصفانہ بوجھ اٹھانا پڑا۔اس سے مرحلہ وار بحالی تکلیف دہ بھی رہی ۔انہیں آزمائشوں سے گزرنا پڑا حالات سے نبرد آزمائی سیکھنی پڑی ۔ کسی حد تک کامیابی ملی پھر بھی ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے
نائب صدرنے کہا کہ مسلمانوں کو درپیش محرومیوں ان کے ساتھ امتیاز اور ان کے الگ تھلگ ہو کر رہ جانے کے تعلق سے (بشمول تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی) میں حکومت اور اس کے عوامل کی کوتاہی کا حکومت کو ہی ازالہ کرنا ہوگااور یہ کام فووری طور پر انجام دینا ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ سیاسی فراست، سماجی امن کے اقدام اور عوامی رائے اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور تجربہ شاہد ہے کہ اصلاحی اقدامات پالیسی سازی اور عمل آوری دونوں سطحوں پر ہونی چاہئیں۔ خااص طور پر آخرالذکر کے لیے ریاستی حکومتوں کو سرگرم تعاون کو عملاً یقینی بنانا ہوگا۔سب کا ساتھ سب کا وکاس کو قابل ستائش سرکاری نصب العین قرار دیتے ہوئے نائب صدر نے کہا کہ بہرحال اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ حسب ضرورت مثبت اقدامات کئے جائیں تاکہ ایک مشترکہ نقطہ آغاز کو مطلوبہ رفتار میں سب کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے کی صلاحیت کے ساتھ یقینی بنایا جاسکے ۔انہوں نے کہا کہ پروگرام تو پہلے بھی بہت بنائے گئے لیکن وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان پر عملدرآمد کیا جائے ۔
اپنی تقریر کا رخ ملت کی طرف موڑتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ پسماندگی اور غریبی جو معاشرتی، اقتصادی اور تعلیمی محاذ پر ترقی میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے سامنے آئی ہے ، اسے دور کرنے کے لئے ملت اسلامیہ ہند کو بہت کچھ کرنے کے ضرورت ہے ۔
ساتھ ہی یہ جائزہ بھی لینا چاہیئے کہ آزمایشوں کی شدت کا سامنا کرنے کی کوشش کتنی بھرپور رہی۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ بندی اور ذات پات کے حوالے سے ایک صدی قبل شکوے کا جو انداز تھا وہ اب بنیادی حقیقت ہے ۔“محمود و ایاز کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے کو تصور اب مسجد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ”۔انہوں نے صفائی اور نظم و ضبط کے حوالے سے بھی ملت کو جھنجھوڑا اور کہا کہ ان دونوں کے علاوہ وقت کی پابندی بھی اب بس مسجد تک ہی محدود ہے ، باہر ان سب کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اس لیے اصلاحی لائحہ عمل اب ان سرکاری قوانین کی بنا پر کرنا ہوگا جن سے مسلمانوں کو محروم رکھا گیا ہے اور جن کے تحت انہیں اس حقیقت کے باوجود درج فہرست ذات یا پسماندہ ذاتوں کادرجہ نہیں ملا جن میں ان کی بڑی اکثریت آتی ہے ۔مسٹر انصاری نے ہندوستانی مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ملت کا اچھا خاصہ طبقہ ایک موذی دائرے اور ثقافت کی ایسی مدافعانہ روش میں پھنسا ہوا ہے جو اسے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔روایت کو تقدس کا درجہ حاصل ہے لیکن اس کا سبب کیا ہے اسے اکثر فراموش کردیا جاتا ہے ۔
نائب صدر نے کہا کہ ملت کے سب سے قابل احترام ذہنوں کے ادارے مجلس مشاورت کو اس جستجو سے کام لینا ہوگا کہ ایک تغیر پذیر ہندوستان اوردنیا میں تشخص اور وقار کے مسائل کو کیسے آگے بڑھایا جائے تاکہ ملت کی ضرورتوں کا ادراک کیا جاسکے ۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ دس برسوں میں مسائل کے ادراک کی سمت میں بھی پیش رفت ہوئی ہے ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے یہ کام سرکاری طور پر انجام دیا ہے ۔ اس رپورٹ نے بعض غلط تصورات کو بھی ختم کیا اور بتایا کہ ایک سے زیادہ معاشرتی و اقتصادی اعتبار سے مسلمان درج فہرست ذات و قبائل سے بھی ابتر حالت میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر یہ اور دیگر مطالعات یہ سمجھنے کے لیے کافی شواہد فراہم کرتے ہیں کہ نابرابری جہاں ان لوگوں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو حاشیہ پر ہیں، وہیں یہ چیز معاشرے کے غالب گروہوں کے حق میں موافق ہے ۔
انہوں نے پچھلے سال کی کنڈو رپورٹ کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ اس رپورٹ میں تدارکی اقدامات کی راہ میں حائل روکاٹیں دور کرنے کی خصوصی سفارشیں کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کو ان کے احساس تحفظ کی مضبوط بنیاد پر تعمیر کرنا ہوگا۔تقریب کے اہم شرکا میں مولانا محمد سالم قاسمی، مولانا جلال الدین عمری، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان، مولانا اصغر امام سلفی، مولانا عطا الرحمان قاسمی، جسٹس راجندر سچر، تیستاسیتلواڑ، معصوم مراد آبادی، پرواز رحمانی اور احمد رشید شیروانی شامل تھے ۔