کراچی: صفورا گوٹھ میں الازہر گارڈن اور اردگردکی رہائشی عمارتیں نہایت پُرسکون تاثر دیتی ہیں۔
وہاں کے تقریباً تمام رہائشیوں کا تعلق اسماعیلی برادری سے ہے اور یہ لوگ شہر میں سفر کے لیے مختلف شٹل سروسز کی سہولت استعمال کرتے ہیں۔
بدھ کی صبح الازہر گارڈن کی ایسی ہی ایک شٹل بس تقریباً 60 مسافروں کو لے کر جیسے ہی اس رہائشی علاقے سے باہر نکلی تو چھ مسلح حملہ آوروں نے اس کو روک لیا اور بس میں داخل ہوکر ڈرائیور اور دیگر درجنوں افراد پر فائرنگ شروع کردی، جس کے نتیجے میں کم از کم 43 افراد ہلاک جبکہ بہت سے زخمی ہوگئے۔
اس علاقے میں رہنے والے ایک صاحب نصیر الدین نے بتایا ’’ہم جائے وقوعہ پر سب سے پہلے
پہنچے تھے۔ ہم پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں وہاں پہنچ گئے تھے۔ جو کچھ ہم نے وہاں دیکھا، اس کو باآسانی الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے کسی کو بھی درد سے کراہتے نہیں سنا، ہم نے خیال کیا کہ سب ہی ہلاک ہوگئے ہیں۔ پھر ہمیں بس کا کنڈکٹر سلطان دکھائی دیا، جو ایک سیٹ کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ قاتل اس کو مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے، وہ باہر آیا اور ہم نے ڈرائیور کے بے جان جسم کو اس کی سیٹ سے ہٹایا اور اس نے ڈرائیور کی جگہ بیٹھ کر پوری رفتار سے بس کو قریبی ہسپتال تک پہنچایا۔‘‘
متاثرین میں سے سلطان نامی ایک اور شخص بھی تھے، جن کا پورا نام سلطان نور محمد تھا۔ سلمان عبدل نے بتایا ’’وہ میرے چچا تھے۔‘‘
سلمان عبدل بھی اسی علاقے کے رہائشی تھے، وہ بھی ان نوجوانوں میں شامل تھے، جو اس بس تک سب سے پہلے مدد کے لیے پہنچے تھے۔
انہوں نے بتایا ’’میرا کزن شمیر نے اپنا شناختی کارڈ بنوایا تھا اور اس کو شناختی کارڈ کی وصولی کے لیے شٹل بس کے ذریعے قریبی نادرا آفس جانا تھا، لیکن اس کے والد نے کہا کہ تمہارے بجائے میں چلا جاتا ہوں، اس لیے کہ ضعیف لوگوں کا جلدی کردیا جاتا ہے۔ اور قاتلوں کی گولی نے انہیں فوری طور پر ہلاک کردیا۔‘‘
الازہر گارڈن کی گلابی اور بھورے رنگ کی یہ بس اب میمن میموریل انسٹیٹیوٹ ہسپتال میں کھڑی ہے اور ہر ایک کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
اس کے دروازے خون آلود ہیں اور گولیوں کے دو نشانات ہیں، جو بس میں داخل ہونے سے پہلے ڈرائیور کو روکنے کے لیے فائر کی گئی تھیں۔
ہسپتال کے اندر مرکزی ہال میں اسماعیلی برادری کے لوگوں کا ہجوم اکھٹا تھا، جو ہلاک ہونے والوں اور زخمیوں کے نام معلوم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ تاہم ہسپتال انتظامیہ نے ایسی کوئی فہرست آویزاں نہیں کی تھی۔
اس ہسپتال کے ایک ملازم نے بتایا ’’جیسے ہی پولیس اپنی ابتدائی رپورٹ مکمل کرلے گی، تو وہ جلد از جلد فہرست آویزاں کردیں گے۔‘‘
یہاں پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات تھی۔
وہاں موجود ایک صاحب زاہد ہاشم سے دریافت کیا کہ کیا آپ اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں ہسپتال آئے تھے، تو انہوں نے کہا کہ ان کا کوئی بھی قریبی عزیز یہاں نہیں ہے، ’’لیکن ہم اسماعیلی ایک برادری ہیں لہٰذا یہ حملہ ہمارے خاندان پر حملے کے جیسا ہی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا ’’جیسے ہی ہم نے اس کے بارے میں سنا تو ہم فوری طور پر مدد کے لیے یہاں پہنچ گئے ہیں۔‘‘
زیادہ تر زخمی جنہیں باآسانی منتقل نہیں کیا جاسکتا تھا، انہیں میمن میموریل ہسپتال میں ہی رکھا گیا، جبکہ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں ابتدائی طور پر چھ زخمی لائے گئے، جن میں ایک مرد اور پانچ خواتین تھیں۔
جب سسکیاں لیتی ہوئی ایک زخمی خاتون کی والدہ سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے روتے ہوئے کہا ’’ہم نے تو کبھی بھی کسی کے لیے بھی بُری سوچ نہیں رکھی۔ پھر کسی نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟‘‘
ہسپتال میں موجود ایک شخص نے اس دلدوز سانحے کے بارے میں سوچتے ہوئے افسوس کے ساتھ سر ہلایا اور بولا ’’ان کے لیے اسماعیلی برادری کے اس قدر بڑی تعداد میں لوگوں کو ہلاک کرنا بہت آسان تھا، اس لیے کہ اسماعیلی برادری کی رہائشی عمارتوں میں رہنے والے افراد شٹل بس کی سہولت استعمال کرتے ہیں اور شٹل بس پر صرف اسماعیلی ہی سوار ہوتے ہیں۔‘‘