برطانیہ عظمیٰ کے علاقے اسکاٹ لینڈ میں آزادی کے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کا سلسلہ جمعرات کے روز شروع ہو گیا۔ ریفرنڈم کے حق میں ووٹ ڈالنے کی صورت میں اسکاٹ لینڈ کو آزادی مل سکتی ہے۔
اسکاٹ لینڈ کی آزادی کا ریفرنڈم پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق گیارہ بجے دن شروع ہوا۔ الیکشن آفس میں ستانوے فیصد بالغ افراد نے بطور رجسٹرڈ ووٹرز اپنے ناموں کا اندراج کروایا ہے۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب بہت زیادہ ہو سکتا ہے اور یہ اسی فیصد سے بھی بڑھ سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ آزادی کے ریفرنڈم نے اسکاٹ لینڈ کے خاندانوں کو بھی متاثر کیا ہے اور اُن میں بھی تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے چرچ نے اس صورت حال کے تناظر میں اسکاٹش عوام سے اپیل کی ہے کہ ریفرنڈم کے نتیجے سے قطع نظر وہ اپنے اندر اتحاد کے جذبے کو برقرار رکھیں۔
اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی مہم چلانے والے ایلیکس سالمنڈ نے اختتامی جلسہ ایڈنبرا میں منعقد کیا اور اِس جلسے میں بےشمار لوگ شریک تھے۔ سالمنڈ کی تقریر کے دوران اسکاٹش لوگ بار بار ’یس وی کین‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ سالمنڈ نے اسکاٹش عوام پر واضح کیا کہ اٹھارہ ستمبر اسکاٹ لینڈ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے اور
اِس لمحے کو امر کرنے کا اختیار یہاں کی عوام کے پاس ہے، لہذا وہ اپنے اِس اختیار کو باہر نکل کر استعمال کریں۔ جلسے میں لوگ اسکاٹ لینڈ کے جھنڈے کو بھی مسلسل لہرانے کے ساتھ ساتھ ممکنہ قومی ترانے کو گانے سے بھی گریز نہیں کر رہے تھے۔
ریفرنڈم میں آزادی کی مخالفت کی بڑی ریلی گلاسگو میں نکالی گئی اور اِس کی قیادت سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن کر رہے تھے۔ اس ریلی میں خطاب کرتے ہوئے گورڈن براؤن نے اسکاٹش عوام سے اُس حُب الوطنی کے جذبے کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی جو انہوں نے دو عالمی جنگوں کے دوران اختیار کیا تھا۔ سابق برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یورپ میں کوئی بھی قبرستان اسکاٹش فوجیوں کے بغیر نہیں اور وہ تمام گریٹ بریٹن کے لیے لڑے اور مرے تھے۔ براؤن نے اسکاٹش عوام سے کہا کہ وہ اُس جذبے سے آزادی کے ریفرنڈم کو مسترد کر دیں۔ اِس دوران آزادی کے حق میں نکلنے والی بڑی ریلیوں نے مالی منڈیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔
بُدھ کے روز رائے عامہ کے کئی جائزے تواتر سے جاری کیے گئے۔ ان کی اوسط رائے یہ ہے کہ اسکاٹش عوام ریفرنڈم کو اڑتالیس فیصد کے مقابلے میں باون فیصد سے مسترد کر دیں گے۔ ایس ٹی وی (اسکاٹش ٹیلی وژن) کے جائزے میں بتایا گیا کہ حق اور مخالفت کا فرق بتدرییج کم ہو رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق رائے عامہ کے جائزوں کے نتیجے حتمی نہیں اور اِن میں غلطی ممکن ہے لیکن جو بھی نتیجہ سامنے آئے گا وہ بہت کم فرق سے ہو گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خاموش اسکاٹش عوام یقینی طور پر ریفرنڈم میں اہم ہوں گے۔
اس اہم رائے شماری سے قبل امريکی صدر براک اوباما نے بدھ کے روز اپنے ايک بيان ميں برطانيہ پر زور ديا کہ وہ مضبوط اور متحد رہے۔ امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ برطانیہ، امریکا کا ایک غیر معمولی اتحادی ہے اور غیر مستحکم دنیا میں اُس کا کردار اہم ہے۔ اوباما نے امید ظاہر کی وہ متحد اور طاقتور رہے گا۔ اگرچہ واشنگٹن حکام يہ واضح کرتے آئے ہيں کہ ووٹ اسکاٹ لينڈ کے عوام ہی کا فيصلہ ہے تاہم وہ يہ بھی واضح کر چکے ہيں کہ واشنگٹن ايک متحدہ برطانيہ کا خواہاں ہے۔
مبصرین کے خیال میں ریفرنڈم میں آزادی کے حق میں ووٹ ڈالنے کے بعد بھی اسکاٹ لینڈ کو ایک رات میں آزادی نہیں میسر ہو گی کیونکہ بے بہا پیچیدہ معاملات کو حل کرنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہو گا۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر لندن حکومت ریفرنڈم ہار گئی تو وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے منصب سے استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں۔
کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسکاٹ لینڈ کو اگر آزادی ملتی ہے تو دنیا بھر میں عمومی طور پر اور یورپ میں خاص طور پر اِس کے انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ہسپانوی وزیر اعظم ماریانو راخوئے کا کہنا ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں آزادی کے حق میں ووٹ ڈالنا حقیقت میں یورپی ادغام کے عمل کو تارپیڈو کرنے کے مترادف ہو گا۔ یہ امر اہم ہے کہ ہسپانوی علاقہ کتلونیا بھی آزادی کا طلب گار ہے۔
برطانیہ عظمیٰ کے علاقے اسکاٹ لینڈ میں آزادی کے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کا سلسلہ جمعرات کے روز شروع ہو گیا۔ ریفرنڈم کے حق میں ووٹ ڈالنے کی صورت میں اسکاٹ لینڈ کو آزادی مل سکتی ہے۔
اسکاٹ لینڈ کی آزادی کا ریفرنڈم پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق گیارہ بجے دن شروع ہوا۔ الیکشن آفس میں ستانوے فیصد بالغ افراد نے بطور رجسٹرڈ ووٹرز اپنے ناموں کا اندراج کروایا ہے۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب بہت زیادہ ہو سکتا ہے اور یہ اسی فیصد سے بھی بڑھ سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ آزادی کے ریفرنڈم نے اسکاٹ لینڈ کے خاندانوں کو بھی متاثر کیا ہے اور اُن میں بھی تقسیم دکھائی دے رہی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے چرچ نے اس صورت حال کے تناظر میں اسکاٹش عوام سے اپیل کی ہے کہ ریفرنڈم کے نتیجے سے قطع نظر وہ اپنے اندر اتحاد کے جذبے کو برقرار رکھیں۔
اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی مہم چلانے والے ایلیکس سالمنڈ نے اختتامی جلسہ ایڈنبرا میں منعقد کیا اور اِس جلسے میں بےشمار لوگ شریک تھے۔ سالمنڈ کی تقریر کے دوران اسکاٹش لوگ بار بار ’یس وی کین‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ سالمنڈ نے اسکاٹش عوام پر واضح کیا کہ اٹھارہ ستمبر اسکاٹ لینڈ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے اور اِس لمحے کو امر کرنے کا اختیار یہاں کی عوام کے پاس ہے، لہذا وہ اپنے اِس اختیار کو باہر نکل کر استعمال کریں۔ جلسے میں لوگ اسکاٹ لینڈ کے جھنڈے کو بھی مسلسل لہرانے کے ساتھ ساتھ ممکنہ قومی ترانے کو گانے سے بھی گریز نہیں کر رہے تھے۔
ریفرنڈم میں آزادی کی مخالفت کی بڑی ریلی گلاسگو میں نکالی گئی اور اِس کی قیادت سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن کر رہے تھے۔ اس ریلی میں خطاب کرتے ہوئے گورڈن براؤن نے اسکاٹش عوام سے اُس حُب الوطنی کے جذبے کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی جو انہوں نے دو عالمی جنگوں کے دوران اختیار کیا تھا۔ سابق برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یورپ میں کوئی بھی قبرستان اسکاٹش فوجیوں کے بغیر نہیں اور وہ تمام گریٹ بریٹن کے لیے لڑے اور مرے تھے۔ براؤن نے اسکاٹش عوام سے کہا کہ وہ اُس جذبے سے آزادی کے ریفرنڈم کو مسترد کر دیں۔ اِس دوران آزادی کے حق میں نکلنے والی بڑی ریلیوں نے مالی منڈیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔
بُدھ کے روز رائے عامہ کے کئی جائزے تواتر سے جاری کیے گئے۔ ان کی اوسط رائے یہ ہے کہ اسکاٹش عوام ریفرنڈم کو اڑتالیس فیصد کے مقابلے میں باون فیصد سے مسترد کر دیں گے۔ ایس ٹی وی (اسکاٹش ٹیلی وژن) کے جائزے میں بتایا گیا کہ حق اور مخالفت کا فرق بتدرییج کم ہو رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق رائے عامہ کے جائزوں کے نتیجے حتمی نہیں اور اِن میں غلطی ممکن ہے لیکن جو بھی نتیجہ سامنے آئے گا وہ بہت کم فرق سے ہو گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خاموش اسکاٹش عوام یقینی طور پر ریفرنڈم میں اہم ہوں گے۔
اس اہم رائے شماری سے قبل امريکی صدر براک اوباما نے بدھ کے روز اپنے ايک بيان ميں برطانيہ پر زور ديا کہ وہ مضبوط اور متحد رہے۔ امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ برطانیہ، امریکا کا ایک غیر معمولی اتحادی ہے اور غیر مستحکم دنیا میں اُس کا کردار اہم ہے۔ اوباما نے امید ظاہر کی وہ متحد اور طاقتور رہے گا۔ اگرچہ واشنگٹن حکام يہ واضح کرتے آئے ہيں کہ ووٹ اسکاٹ لينڈ کے عوام ہی کا فيصلہ ہے تاہم وہ يہ بھی واضح کر چکے ہيں کہ واشنگٹن ايک متحدہ برطانيہ کا خواہاں ہے۔
مبصرین کے خیال میں ریفرنڈم میں آزادی کے حق میں ووٹ ڈالنے کے بعد بھی اسکاٹ لینڈ کو ایک رات میں آزادی نہیں میسر ہو گی کیونکہ بے بہا پیچیدہ معاملات کو حل کرنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہو گا۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر لندن حکومت ریفرنڈم ہار گئی تو وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے منصب سے استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں۔
کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسکاٹ لینڈ کو اگر آزادی ملتی ہے تو دنیا بھر میں عمومی طور پر اور یورپ میں خاص طور پر اِس کے انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ہسپانوی وزیر اعظم ماریانو راخوئے کا کہنا ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں آزادی کے حق میں ووٹ ڈالنا حقیقت میں یورپی ادغام کے عمل کو تارپیڈو کرنے کے مترادف ہو گا۔ یہ امر اہم ہے کہ ہسپانوی علاقہ کتلونیا بھی آزادی کا طلب گار ہے۔