” عدم برداشت، تشدد کی ایک شکل ہے اور ایک حقیقی جمہوری روح کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ خود ہے ” – مہاتما گاندھی کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ جمہوریت میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں۔پیچیدہ مسائل بھی بات چیت سے حل ہو سکتے ہیں۔مگر کچھ مسائل میں نام نہاد لیڈر لوگوں کے جذبات سے کھلواڑ کر کے انکو سڑکوں پر نکال کر گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کی ایک تازہ مثال فلم’ یا رب ،ہے جس میں میں دکھایا گیا ہے کہ اسلام کو دہشت گردی کے طور پر چند نا عاقبت اندیش نام نہاد لیڈر استعمال کرتے ہیں۔اس فلم کی کہانی ہی شاید اب اس پر صادق ہو رہی ہے۔کچھ مٹھی بھر لوگ فلم یارب کے خلاف ہوکر نفرت کا بازار گرم کر رہے ہیں۔جبکہ ملک اس وقت مختلف نوعیت کی دہشت گردیوں سے نبرد آزما ہے۔اس صورت میں ہمارے نوجوانوں کو کون سی طاقتیں ہیں جو ابھار رہی ہیں اور انکو گمراہ کر کے تشدد پر آمادہ کر رہی ہیں۔یہ ایک اہم سوال ہے۔
اس فلم کے خلاف پرتشدد ردعمل جاری رکھنے کے پس پشت کہیں ذاتی تو کہیں تنظیمیں مفادات کا ر فرما ہیں۔
پوسٹر پھاڑنا ، بینر جلانے اور سڑک جام کرنا فلم کے خلاف احتجاج کی وہی پرانی شکل ہے جو فرقہ پرست طاقتیں ہمیشہ سے اختیار کرتی آرہی ہیں . ، شیو سینا،ایم این۔ ایس اور بجرنگ دل کے علاوہ دیگر فرقہ پرست طاقتوں کا ایک حصہ لوگوں کو ورغلا رہا ہے اور ایسی بے بیناد باتوں کی تشہیر کر رہا ہے جو سرے سے فلم کا حصہ ہی نہیں ہیں۔
فلم کے ترجمان محمد عثمان نے اس فلم کے پیچھے اس بنیادی خیال کہ قرآن کسی بھی طرح سے دہشت گردی کی منظوری نہیں دیتا اور مقدس کتاب میں ایک بھی آیت تشدد کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ ” ، انہوں نے کہا کہ . بہت سے لوگ قرآن کی آیات کا ذکر اور اسلام کو ان کے ذاتی مفادات اور د شت گردی کے عمل کے دین ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسکے مطالب اپنی طرح سے اخذ کرنے کی مذموم کوشش بھی کرتے ہیں،جو کہ غلط ہے “انہوں نے بتایا کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت اس فلم کی نہ صرف حامی ہے بلکہ اسکے ٹریلر کو دیکھ کر منتظر بھی ہے
فلم یارب کو سینسر بورڈ کی طرف سے منظوری مل چکی ہے .ٹرایبینول نے اپنے مشاہدات میں کہا ہے کہ ایسی فلم ہر ہندوستانی بالخصوص نوجوان کو دیکھا چاہیئے۔ . فلم ۷ فروری کو فلم کو ریلیز ہوگی، خود ساختہ قیادت نوجوانوں کو اکسا رہی ہے اور اب یہ انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ ان افراد کی نشان دہی کرے جو دہشت گردی کے خلاف اس فلم کے خلاف نہ صرف احتجاج کر رہے ہیں بلکہ تشدد کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ظاہر ایک جمہوری نطام میں ہر ایک کو اپنی بات رکھنے کا حق ہے مگر بات کو کس طرح سے رکھا جائے؟کس طرح سے ان مسائل کو حل کیا جائے اسکے طریقہ کار پر بھی نظر دوڑانے کی ضوررت ہے۔
صوفی سید محمد اکرام اللہ نقشبندی کا خیال ہے کہ اسلام امن کا پیغام دیتا ہے مگر ہمارے کچھ نام نہاد علما اسلام کی آڑ لیکر ملک کو تشدد کی راہ پر لانے کی سازش کیا کرتے ہیں۔دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنے کا واحد طریقہ ہے کہ آسمانی کتاب کے آیات کا بغور مطالعہ کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ انکی تعلیمات ہمارے کئے کیا ہیں؟
سید غفران احمد سجادہ نشین آستانہ غوثیہ کا خیال ہے کہ مسلمانوں میں اب وہ طرز فکر کام کر رہی ہے جو دین کے نرم اور محبت بھرے خیالات کی نفی کررہی ہے اور کٹر پنتھی ذہنیت پھیلانے والوں کی تعداد میں کس کے اشاروں پر کام ہو رہا ہے۔ انہون نے کہا کہ فلم یا رب ملک میں دہشت گردی کے خلاف ایک جہاد ہے اور ایسی طاقتوں کی مخالفت ہے جو دین اسلام کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بدنام کر ہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ اس سے قبل متعدد فلمیں دہشت گردی کا موضوع بن چکی ہیں اور مسلمانوں نے انکو خوب سراہا بھی،اس سے یہ ثابت ہوا کہ ایک معمولی حلقہ دہشت گردی کے مسئلہ پر سنجیدہ نہیں ہے اور نوجوانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
محمد احمد مینائی نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ فلم یا رب کو وقار کا سوال نہ بنائیں کیونکہ ایسی فلمیں آتی جاتی رہتی ہیں اور ہم غیر سنجیدہ مسائل میں اپنا سارا وقت برباد کر کے،قوم کو در پیش خطرناک مسائل سے چشم پوشی کر کے اسکا نقصان کریں گے۔ سیاسی پارٹیوں کے آلہ کار بننے کے بجائے ہم کو عقل اور تدبر سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے مسلمانوں کے ہر وقت کام آنے والے مہیش بھٹ اور انکی ویشیش فلمز ، فلم یا رب کو پورے ملک میں نمائش کےلئے پیش کر رہی ہے۔