شدت پسندی کا مرکز سمجھے جانے والے ملک افغانستان سے نہ صرف عسکریت پسند دوسرے ممالک میں لڑائیوں میں براہ راست حصہ لیتے ہیں بلکہ افغانستان میں غیر ملکی خواتین کی تربیت اور ذہن سازی کے ذریعے دہشت گردی کی تعلیم سعودی عرب اور دوسرے ملکوں کو درآمد بھی کی جاتی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب کی تین خواتین افغانستان کی جنوبی ریاست قندھار میں عسکریت پسندی اور دہشت گردانہ نظریات کی تعلیم حاصل کر کے واپس سعودی عرب آئی ہیں
جہاں انہیں مقدمات کا سامنا ہے۔
ان میں ایک یمنی نژاد خاتون اپنے شوہر کے ساتھ افغانستان گئی جہاں اس نے قندھار میں القاعدہ کے مقتول سربراہ اسامہ بن لادن کے زیر استعمال ایک مکان میں شدت پسندی کی تعلیم حاصل کی۔ ایک دوسری خاتون جو پاکستان میں ایک فلاحی تنظیم کے ساتھ وابستہ رہ چکی ہے بھی قندھار سے اسی نوعیت کی تربیت کے بعد دوبارہ سعودی عرب آئی جہاں انہیں گرفتار کیا گیا۔ ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان سے شدت پسندی کی تربیت پانے کے بعد واپس آئی خواتین نے راز داری میں سعودی عرب میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے مقابلے میں قتل اور گرفتار ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اس کے علاوہ وہ افغانستان میں سرگرم القاعدہ عناصر کے لیے عطیات بھی جمع کرتی رہی ہیں۔ ان میں سے ایک نے اپنی کم عمر بیٹی کی ایک افغان جنگجو کے ساتھ شادی کی بھی کوشش کی تھی۔
تینوں خواتین کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے تاہم ان میں سے ایک کا شوہر ابھی زیر حراست ہے۔ عدالت میں پیشی اور تفتیش کے دوران وہ افغانستان سے جہادی نظریات کی تعلیم وتربیت کے حصول کا اعتراف کر چکی ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ افغانستان سے واپسی کے بعد انہوں نے سعودی عرب میں بھی اپنے خیالات کی ترویج شروع کی تھی۔
یمنی نژاد خاتون اوری البغدادی نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ افغانستان فرار ہو گئی تھی، جہاں وہ کچھ عرصہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ میں القاعدہ کے ایک مرکز میں بھی رہے ہیں۔ وہاں ان کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے تھے جس کے بعد وہ وہاں سے نکل کر افغانستان کے صوبہ قندھار چلے گئے۔
قندھار میں انہیں اسامہ بن لادن کی ایک سابقہ رہائش گاہ پر منتقل کی گیا جہاں جہادی افکار وخیالات کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا گیا تھا۔ وہاں وہ ہفتہ وار تربیتی نشست میں شرکت کرتے۔ تربیتی نشست میں عقائد، فقہ، جنگ و قتال، جہاد باہمی تعلق اور القاعدہ کے مقاصد اور ان کے حصول سے متعلق موضوعات پر لیکچر دیے جاتے۔ اس نے بتایا کہ قندھار میں قیام کے دوران انہوں نے کئی غیر ملکی بالخصوص عرب خواتین سے ملاقاتیں کیں جن کے عزیز و اقارب القاعدہ کے ساتھ لڑے ہوئے مارے گئے تھے یا گرفتار تھے۔ ان میں ام اسامہ، ام خلود اور ام زبیر نامی خواتین شامل تھیں۔ ان ملاقاتوں میں اس کا شوہر بھی ساتھ رہا۔