افغانستان میں غیر معمولی سکیورٹی کے ماحول میں صدارتی انتخاب کے آغاز کے کچھ دیر بعد صوبہ لوگر میں ایک بم دھماکے سے کم از کم چار ووٹر زخمی ہو گئے ہیں۔ بعض دور علاقوں میں بھی دھماکے ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ تاہم کسی بڑے نقصان کی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔
پولنگ کا آغاز الیکشن کمیشن کے سربراہ احمد یوسف نورستانی نے سکیورٹی کے اعتبار سے انتہائی محفوظ بنائے گئے پولنگ سٹیشن میں اپنا ووٹ استعمال کر کے کیا ہے۔ مجموعی طور ایک کروڑ پندرہ لاکھ افغان ووٹروں کے لیے سکیورٹی حصار میں چھ ہزار پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔
پولنگ کے آغاز کے چند گھنٹے بعد سب سے پہلے صوبہ لوگر کے ایک سکول پر دھماکہ کیا گیا ہے، اس سکول میں مقامی آبادی کیلیے پولنگ سٹیشن بنایا گیا ہے۔ اس دھماکے سے چار ووٹر زخمی ہو گئے ہیں۔ پولنگ کی کوریج اور مانیٹرنگ کیلیے آنے والے کارکنوں کی اکثریت سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر واپس جا چکی ہے۔ خدشہ ہے کہ دس فیصد تک پولننگ سٹیشن بند کرنا پڑیں گے۔
افغانستان میں آج ہونے والے تیسرے صدارتی انتخاب کیلیے انتخابی مہم آخری دنوں میں طالبان کے حملوں کی زد میں رہی۔ اس سلسلے میں طالبان کا کابل کے سرینا ہوٹل، الیکشن کمیشن پر حملے کے علاوہ انتخابی کوریج کیلیے آنے والے صحافیوں پر خوست میں حملہ اہم رہا۔ اس حملے میں نشانہ ایسوسی ایٹڈ پریس سے وابستہ دو خواتین صحافی نشانہ بنیں۔ جن میں سے ایک ہلاک اور دوسری شدید زخمی ہوگئیں۔
افغان حکومت کے سکیورٹی اداروں کے علاوہ افغانستان میں غیر ملکی افواج نے صدارتی انتخاب کو بحفاظت ممکن بنانے کیلیے آپریشنل سکیورٹی انتظامات کیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دو لاکھ سے زائد سکیورٹی اہلکار آج افغانستان کے گلی کوچوں، شاہراہوں، پولنگ سٹیشنوں، سرکاری اداروں، فوجی مراکز اور ہم شخصیات کی حفاظت پر مامور کیے گئے ہیں۔
تاہم پاکستان میں مقیم ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو صدارتی انتخاب کیلیے ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے 2004 میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں پاکستان میں افغان مہاجرین کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔
البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کی طرف سے وسائل فراہم نہ کیے جاسکنے کے باعث مہاجرین کا ووٹ استعمال نہیں ہو سکے گا۔ مہاجرین کے ووٹ نہ پڑنے کا نقصان افغان صدارتی امیدوار زلمے رسول کو ہوسکتا ہے جبکہ عبداللہ عبداللہ کو فائدہ ہوگا۔
واضح رہے آٹھ صدارتی امیدواروں میں سے تین نمایا امیدواروں میں زلمے رسول، اشرف غنی احمد زئی اور عبداللہ عبداللہ شامل ہیں۔ موجودہ صدر حامد کرزئی دو صدارتی مدتیں پوری کر چکنے کے بعد آئینی طور پر تیسری مرتبہ انتخابی امیدوار نہیں بن سکتے ہیں۔ ان کی حمایت زلمے رسول کے ساتھ ہے۔