واشنگٹن ۔ امریکا نے بارہ سالہ افغان جنگ کے دوران ہونے والی غلطیوں پر افغانستان سے معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی کوئی تجویز زیرغورنہیں ہے۔
افغانستان کی طرف سے اس دعوے ” افغانستان سے معافی مانگنے کیلیے ایک مسودہ کی تیاری جاری ہے ”کے سامنے آنے کے بعد امریکی سلامتی کی مشیر سوسن رائیس نے کہا ہے کہ ”ایسی کسی معافی کی ضرورت نہیں ہے۔”
واضح رہے اس سے پہلے افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان نے کہا تھا ”کہ ” صدر اوباما ایک خط لکھںے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس خط میں اوباما امریکی فوج کی طرف سے کی گئی ان غلطیوں کو تسلیم کریں گے جو بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کے حوالے ہوتی رہی ہیں۔ لیکن سوسن رائیس کا کہنا ہے کہ ” ایسا کوئی خط لکھا گیا ہے نہ بھجوایا گیا ہے۔”البتہ امریکی دفتر خارجہ نے امریکا اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ سکیورٹی سے متعلق معاہدے کے بارے میں قدرے پیش رفت کا بتایا ہے۔
اس سے پہلے افغان حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ معاہدے کے اہم نکات پر اتفاق ہو چکا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ حامد کرزئی اور امریکی وزیر خارجہ منگل کے روز ٹیلی فون پر معاہدے کی راہ میں موجود رکاوٹوں پر بات کر کے کچھ پیش رفت کر چکے ہیں ۔
تاہم امریکی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ابھی بھی معاہدے کے حتمی مسودے کی تیاری سے پہلے بعض نکات کا طے ہونا باقی ہے۔ صدر کرزئی کے ترجمان نے منگل کے روز کہا تھا ”معاہدے میں اہم رکاوٹ امریکی فوجیوں کو گھروں میں گھسنے کی اجازت دینے کا معاملہ ہے۔” اس کے مقابلے میں امریکی ترجمان جین پاسکی کا کہنا ہے کہ ”ابھی کچھ حتمی مرحلے تک پہنچنے کیلیے بعض ایشوز کا طے ہونا باقی ہے۔”
ایسے موقع پر جبکہ اہم معاہدے میں مشکلات ہیں، امریکی سلامتی کی مشیر کا دو ٹوک انداز میں یہ کہنا کہ عام افغانیوں کو تکلیف پہنچانےکا باعث بننے والی غلطیوں پر معافی نہیں مانگی جا رہی ہے، دوطرفہ مسائل میں کمی کا ذریعہ نہیں بنے گا۔