کابل. افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پارلیمنٹ پر طالبان نے حملہ کیا ہے. پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر سات اور احاطے کے اندر ایک خودکش دھماکے کی خبر ہے. حملے میں اب تک 6 افراد کے مارے جانے کی خبر ہے جبکہ 30 افراد زخمی ہوئے ہیں. الجزیرہ کے مطابق پارلیمنٹ کے احاطے کے باہر بھی ایک گاڑی میں دھماکہ ہوا ہے. کل نو دھماکے ہوئے ہیں. اس درمیان، طالبان نے حملے کی ذمہ داری لی ہے. دھماکوں کے دو گھنٹے بعد کابل پولیس نے سیکورٹی آپریشن میں چھ حملہ آوروں اور ایک خودکش کار بمبار کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے. پولیس کے مطابق، پارلیمنٹ کے احاطے میں فائرنگ بھی بند ہو گئی ہے.
کابل پولیس کے ترجمان اےبدللاه كريمي نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا تھا، “طالبان نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا ہے. دہشت گرد پارلیمنٹ ایوان کے اندر نہیں ہیں، لیکن وہ احاطے کے کسی حصے میں موجود ہیں.”
ٹولو نیوز کی رپورٹ کے مطابق، حملہ صبح 10 بج کر 20 منٹ پر ہوا، جب دوسرے نائب صدر محمد سرور دانش وزیر دفاع کے نمني کا ساسدو تعارف کروانے والے تھے.
پارلیمنٹ میں گھسا دہشت گرد لیکن کسی رہنما کو نقصان نہیں
ایک انگریزی نیوز چینل کے مطابق ایک دہشت گرد پارلیمنٹ کے اندر بھی پہنچ گیا تھا لیکن وہ کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچا پایا. سیکورٹی فورسز نے اسے قابو میں کر لیا. اس درمیان، سیکورٹی فورسز نے پارلیمنٹ ہاؤس کو گھیر لیا. دھماکے کے بعد کے اندر موجود تمام ممبران پارلیمنٹ اور صحافیوں کو محفوظ نکال لیا گیا ہے. ارد گرد کے علاقے سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے. افغانستان حکومت کی جانب سے جاری بیان میں حالات قابو میں ہونے کی بات کہی گئی ہے.
طالبان نے لی ذمہ داری
طالبان ترجمان جبيللاه مجاہد نے ٹویٹر پر لکھا، “بہت سے مجاہدین پارلیمنٹ بلڈنگ میں گھس گئے ہیں اور بھاری گولہ باری جاری ہے. ہمارے جنگجوؤں نے حملہ اس وقت کیا، جب وزیر دفاع کے عہدے کے لئے امیدوار کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جا رہا تھا.” الججيرا کے صحافی جینیفر گلاسي نے بتایا کہ دھماکے کے دوران پارلیمنٹ کی کارروائی جاری تھی اور اسپیکر ایوان کے خطاب کر رہے تھے. دھماکے ہوتے ہی لائیو ٹےلكاسٹ کر رہے کیمرے ہلنے لگے اور بھگدڑ مچ گئی.
حملے کے پیچھے پاکستان!
افغان پارلیمنٹ پر حملے کے پیچھے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہو سکتا ہے. سیکورٹی اےكسپرٹس کے مطابق، گزشتہ ماہ 25 مئی کو افغانستان کی حکومت کے حکام اور طالبان لیڈروں کے درمیان چین میں ایک انتہائی خفیہ مذاکرات ہوئی تھی. لیکن اس بات کی معلومات چین کے ہی کچھ خفیہ حکام نے آئی ایس آئی کو دے دی. پاکستان کو لگتا ہے کہ کہیں افغانستان میں اس کے کردار کو کم نہ ہو جائے یا افغان حکومت بھارت اور امریکہ کے زیادہ قریب نہ چلی جائے، اسی لئے طالبان کے ایک خاص دھڈے़ سے یہ حملہ کرایا گیا ہے. چین میں ہوئی اس بات چیت میں افغان وفد کی قیادت محمد معصوم ستانكجےي نے کیا، جو کہ گزشتہ ہفتے تک ملک کے امن مذاکرات ادارے ہائی پیس کونسل کے سب سے اہم رکن تھے. ان کے علاوہ سابق ممبر پارلیمنٹ اور غنی کے اتحاد کے شراکت عبداللہ عبداللہ کے ساتھی محمد عاصم نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی. طالبان کی جانب سے تین سینئر لیڈر ملا عبد جليل، ملا محمد حسن رحمانی اور ملا عبدالرزاق میٹنگ میں شامل ہوئے. خاص بات یہ ہے کہ یہ تینوں پاکستان میں ہی رہتے ہیں اور طالبان کے کوئٹہ میں واقع قیادت کونسل کے قریبی ہے.
حملے کے پیچھے سیاسی وجہ تو نہیں
ایک غیر ملکی نیوز ایجنسی کے جرنلسٹ نے اپنے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حملے کے پیچھے افغانستان کی اندرونی سیاست ہو سکتی ہے. اس نے کہا کہ افغانستان میں پارلیمنٹ ہی سب سے محفوظ جگہ ہے اور وہاں خودکش دھماکے کے بعد بھی گھسنا ناممکن ہے. لیکن نہ صرف حملہ آور پارلیمنٹ احاطے میں داخل بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر اندر بھی ایک دہشت گرد پہنچ گیا. اس جرنلسٹ نے کہا کہ ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب کوئی بڑا سیکورٹی افسر یا رہنما اس کی مدد کرے. فی الحال، وہاں نائب صدر اور وزیر دفاع کی تقرری کو لے کر تنازعہ چل رہا ہے.
بھارت نے کی تھی پارلیمنٹ بنانے میں مدد
افغانستان میں پارلیمنٹ ہاؤس کی تعمیر کا کام میں بھارت نے بھی مدد کی ہے. اس کے لئے مالی مدد کے ساتھ ہی وہاں بھارتی ملازمین کو بھی تعینات کیا گیا ہے. افغانستان پارلیمنٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے 260 کروڑ روپے دیئے گئے. 2014-15 کے دوران اس منصوبہ کے واسطے 95 کروڑ روپے جاری کئے گئے. اس عمارت کی تعمیر کا کام میں ہندوستان کے 111 ملازمین لگے تھے.