واشنگٹن: ایک نئی امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ امریکی فوج کی محدود موجودگی کے باوجود 2017 تک افغانستان میں طالبان اور دوسرے جنگجو گروپ غلبہ حاصل کر لیں گے۔
امریکی پالیسی سازوں اور قانون سازوں کے لیے ‘قومی انٹیلی جنس اندازوں’ کے نام سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں تمام سولہ امریکی خفیہ اداروں سے حاصل کردہ معلومات اور مشاہدے شامل ہیں۔
رواں سال ایک اور جاری ہونے والی رپورٹ میں امریکی خفیہ اداروں نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان میں موجود دوسرے جنگجو گروہوں کے مقابلے میں لشکر ِ طیبہ سب سے زیادہ مختلف الجہت اور مشکلات پیدا کرنے والا گروپ بنا رہے گا۔
نئی رپورٹ میں خبر دار کیا گیا ہے کہ ‘ لشکرِ طیبہ میں پاکستان کے اندر حماس اور حزب اللہ جیسی موجودگی کی دور رس صلاحیت موجود ہے’۔
اس رپورٹ کی ایک کاپی دیکھنے والے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ہفتہ کو کہا کہ رپورٹ نے افغانستان میں سیکورٹی صورتحال کی مایوس کن تصویر کشی کی ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگلے سال امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں محدود عالمی فورسز کی موجودگی کے حوالے سے واشنگٹن اور کابل کے درمیان سیکورٹی معاہدے پر دستخط نہ ہونے کی صورت میں وہاں صورتحال مزید تیزی سے بگڑے گی۔
رپورٹ میں مزید دعوی کیا گیا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں جو فوائد حاصل کیے ہیں وہ طالبان اور دوسرے جنگجو گروہوں کے بتدریج بااثر ہونے کی وجہ سے 2017 تک ضائع ہو جائیں گے۔
دو ہزار تیراکے پہلے چھ مہینوں کے حوالے سے اسی رپورٹ کے ایک اور ورژن میں کہا گیا کہ پاکستان نیٹو فورسز کے انخلا کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان پر اپنی ‘بھرپور توجہ’ رکھے ہوئے ہے۔
پاکستانی حکومت نے کابل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کی ہیں تاکہ غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے دوران اس کے مفادات کو پیش نظر رکھا جائے۔
پاکستانی فوج نے رواں سال قبائلی علاقوں میں اپنے آپریشن جاری رکھے اور 2012 کے آخر میں شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کی تیاریاں بھی کر لی تھیں۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں تیار کی گئی جب امریکا اپنی لڑاکا فوج کو افغانستان سے نکالنے کی تیاریوں میں مصروف ہے، لہذا اس رپورٹ کی توجہ کا مرکز افغانستان کی صورتحال ہی رہی۔
رپورٹ میں مستقبل کے حوالے سے شامل پیش گوئیاں امید افزا تو نہیں لیکن اس میں طالبان کے افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے کے تاثر کو مسترد کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کابل کی مرکزی حکومت رفتہ رفتہ ملک کے بیشتر حصوں پر اپنا کنٹرول اور اثر و رسوخ کھوتی چلی جائے گی اور صورتحال ماضی میں سویت فوج کی بے دخلی کے بعد جنگجو سرداروں اور گروہوں کے درمیان خانہ جنگی جیسی ہو جائے گی ۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، افغانستان پر کام کرنے والے امریکی حکام بھی رپورٹ کے اسی خلاصہ سے متفق نظر آتے ہے۔
پوسٹ کا کہنا ہے کہ امریکی خفیہ اداروں کے تجزیہ نگاروں نے ان علاقوں کی تفصیلات نہیں بتائیں جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ آئندہ سالوں میں یہ طالبان یا دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے زیر اثر ہوں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کابل کی مرکزی حکومت کے اثر و رسوخ کھونے کی ایک اور وجہ اس کے پاس علاقائی جنگجو سرداروں کی وفاداریاں ‘خریدنے’ کی استعداد نہ ہونا بھی ہے۔
رپورٹ کے پہلے ورژن میں پاکستان کی معاشی پریشانیوں کا احاطہ بھی شامل تھا۔
‘محدود ٹیکس نیٹ، محصولات جمع کرنے کا خراب نظام، غیر ملکی امداد پر انحصار اور پائیدار اقتصادی ترقی کے لئے حقیقی امکانات نہ ہونے کی وجہ سے معاشی طور پر پاکستان مشکلات میں گھرا رہے گا’۔
پاکستان میں سابق حکومت کی معاشی کارکردگی پر اپنے تبصرے میں رپورٹ کا مزید کہنا تھا: سابق حکومت اقتصادی ترقی پر مسلسل دباؤ کا باعث بننے والی معاشی مشکلات کو حل کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں تھی۔