ندیم صدیقی
آج شہر میں’ پاسبانِ ادب‘ کے زیر اہتمام ہمارے شعرو ادب کے ہیروز کی وراثت کو نئی نسل کے سامنے روشن کرنے کی ایک قابلِ تحسین کوشش کی جارہی ہے۔ ان ہیروز میں وہ لوگ ہیں جو بہ حسنِ اتفاق نومبر ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ جن میںعلامہ اقبال ، مولانا ابوالکلام آزاد،شبلی نعمانی،اکبرالہ آبادی،فیض احمدفیض،علی سردار جعفری،اختر الایمان،احمد ندیم قاسمی اور پروین شاکر کے نام شامل ہیں ۔ ’پاسبانِ ادب‘ سے متعلق جملہ افراد اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں اپنی تمام توانائی لگائے ہوئے ہیں۔ اس طرح کی تقریبات یو ں بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کہ ان میں صرف اہلِ اُردو ہی نہیں وہ لوگ بھی دِلچسپی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں جو اُردو کی شیرینی اور اس کے گنگا جمنی وصف کے پرستار ہیں۔ اس پروگرام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں پاکستانی حوالہ رکھنے والے فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور پروین شاکر کو بھی یاد رکھا گیا ہے۔ یہ امر’ پاسبان ادب‘ کے ذمے داران کی نہ صرف وسیع القلبی کا ثبوت ہے بلکہ اس طرح اُردو زبان کی
Nadeem Siddiqui
وسعت اور اس کی سمائی بھی واضح ہو گئی ہے۔
شعر و ادب کسی سرحد کے نہ کبھی پابند رہے ہیں اور نہ کبھی پابند ہو سکتے ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ملکوں اور مختلف قوموں کے درمیان شعر وادب کاکر دار بڑی اہمیت کاحامل ہوتا ہے ۔ یہاںاس کی تفصیل بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ اس امر کی ایک نہیں کئی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔اس وقت ڈاکٹر اقبال ہماری گفتگو کا اصل موضوع ہےں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی تک ملکِ عزیز میں اقبال کے ساتھ غیروں جیسا سلوک ہی نہیں کیا گیا بلکہ وہ ہمارے عوام و خواص کے ایک بڑے طبقے میں معتوب بھی رہے ۔ مشہور ہے کہ سابق وزیر اعظم آنجہانی مرار جی بھائی دیسائی ایک بار یہ کہتے سنے گئے کہ ڈاکٹر اقبال نے جب ’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘جیسا ترانہ لکھا تھا تو وہ پھر پاکستان کیوں چلے گئے۔؟ اسی طرح ایک بار اِندور میں ہندی کے ایک شاعر نے ہم سے سو ال کر لیا کہ ڈاکٹر اقبال ہی نے پاکستان بنوایا تھا اور اُردو والے اسی شاعر کاگن گاتے رہتے ہیں۔؟ ہم نے ان سے سوال کیا کہ آپ اقبال کے بارے میں اس کے علاوہ بھی کچھ جانتے ہیں؟ تو انہوں نے ہماری جانب سوالیہ نگاہ سے دیکھا، تو ہم نے کہا کہ ملک کب تقسیم ہوا اور پاکستان کب بنا؟ تو انہوں نے کہا: ۱۴ اگست ۱۹۴۷کو؟ ہم نے کہا: شریمان جی ملک کی آزادی سے ٹھیک نو برس قبل ۲۱ اپریل۱۹۳۸ ءکو لاہور میں ڈاکٹر اقبال کے دیہہ کا انت ہوچکا تھا۔ وہ چکرائے اور کہنے لگے کہ کیا یہ صحیح ہے؟ ہم نے کہا: آپ جب چاہیںGoogle پر سرچ کر کے تصدیق کرلیں۔ علامہ اقبال ہماری زبان کے وہ شاعر ہےں جنکے چاہنے والوں میں ہر مکتب فکر کے لوگ شامل ہیں۔ اقبال کا تشخص محض ایک شاعر کا نہیں بلکہ وہ اپنی دانشورانہ فکر اور فلسفے کے سبب پوری اُردو شاعری میں انتہائی امتیازی شان کے حامل ہیں۔ یقیناًپاکستانی انھیں’ مصورِ پاکستان‘ کے لقب کے ساتھ یاد کرتے ہیں ۔ کمیونسٹ انھیں اپنی آڈیا لوجی کا ترجمان سمجھتے ہیں۔ مسلمان اُنھیں دین فطرت کا شاعر کہتے ہیں۔ یہ باتیں کسی نہ کسی حد تک صحیح ہےں بھی مگر اقبال کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہماری زبان میں انسانیت اور آدمی کی حرمت اورخودی کے مبلغِ اعظم ہےں۔ اقبال کتابِ مبین کو اپنے قلب وروح میں اُتارنے والے اُردو کے اولین شاعر کہے جانے کے قابل ہیں اور انہوں نے اس سے استفادہ ہی نہیں کیا بلکہ اپنے پڑھنے والوں کو بھی روحِ قرآن سے ہم آہنگ کرنے کی سعیِ مبارک بھی کی اور واقعہ یہ بھی ہے کہ اقبال جیسے آفتاب سے ہمارے ہاں علم وادب کے نجانے کتنے چراغ روشن ہوئے ہیں اور اس طرح اقبال اپنی مثال آپ بن گئے۔ کیا یہ غلط ہے کہ نصف صدی سے زائد مدت گزر چکی ہے مگر طرز ِاقبال کی سلیقے سے نقل بھی نہ ہوسکی۔ بلکہ اقبال کو سمجھنے میں بھی ہم پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے۔!! اقبال نے کبھی اپنی کلاس میں تاخیر سے آنے پر جواب دِیا تھا کہ ’ اقبال‘ دیر ہی سے آتا ہے۔ اقبال کے بڑے بڑے ماہر گزرے اور ہمارے عہد میں بھی موجود ہیں مگر سچ یہ بھی ہے کہ اقبال کی تفہیم اب تک باقی باقی ہے۔ رام کا مداح اقبال، نبی کریمﷺ کا عاشق اقبال ابھی تک دُنیا کے سامنے اپنے افکار و اپنی دانش کے پردے سے پوری طرح باہر نہیں دیکھا جاسکا۔ ہم پر افکارِ اقبال کے تمام تر دَر وا کرنے کی ذمے داری ہے۔ خود اقبال بھی کہہ گئے ہیں کہ’ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔‘
یہ محض انکساری نہیں بلکہ تجسس و تفکر کی ایک ایسی دَعوت ہے جس کےلئے ہمیں خود اقبال کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس طرح وہ آنے والی نسلوں میں فکرو دانش کی روشنی دیکھنا چاہتے تھے۔ واضح رہے کہ فکر اقبال کی تفہیم محض اقبال کو سمجھنے ہی کا اعزازنہیں بلکہ اس میں ہماری اقبال مندی بھی پوشیدہ ہے۔ ن۔ ص