مغربی جمہوریت کی دلفریبیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ یہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام پر ہی ہے ۔لیکن یہ صرف کہنے کی حد تک تو کشش رکھتا ہے پر حقیقت کیا ہے اس کا مشاہدہ ہم اس کی دوسو سالہ تاریخ سے کرسکتے ہیں کہ اس سے عوام الناس کو کیا ملا ۔معاشرے کے ان دبے کچلے محروم اور پسماندہ طبقات کو اس نے کیا دیا دوسو سال کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ محروم اور پسماندہ طبقات اس کے فیوض و برکات سے آج بھی محروم ہیں ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ دراصل یہ طرز حکومت سرمایہ داروں امراء اور شرفاء کو ہی فائدہ پہنچانے والا ہے ۔اسی طبقہ کو اب تک اس سے فیض پہنچا ہے۔کیوں کہ یہ شاہی اور آمرانہ طرز حکومت کا ہی تبدیل شدہ نام ہے۔اس کی طرف علامہ اقبال نے ابلیس کی مجلس شوریٰ میں اس طرح اشارہ کیا ہے ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
دو سو سال سے اس کا شور سارے عالم میں ہے ۔مثالی طرز حکومت کا زور دار پروپگنڈہ کیا جاتا رہا ہے ۔یہی وہ دو سو سالہ دور ہے جب مسلمانوں کا زوال انتہا کو پہنچا اور یوروپ کا نشاۃ ثانیہ ہوا ۔نئی نئی سائنسی اور صنعتی ترقی اور کلیسا سے عوامی بغاوت نے سرمایہ دارانہ نظام کو اپنے نئے نام اور خدو خال سے عوام کے درمیان برسوں سے دبی کچلی اور سرمایہ دارانہ مظالم کی شکار مجبوروں کے سامنے اس دلفریب نیلم پری کا تعارف ہوا تو عوام نے اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ کر ہاتھوں ہاتھوں لیا۔انہوں نے اسے اپنی ترقی وہ خوش حالی کا زینہ سمجھ
ا ۔وجہ وہی پرفریب نعرہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعہ اور عوام کیلئے ۔یعنی عوام و خواص اپنی مرضی سے اپنا حکمراں چنیں گے ۔اب چاہے وہ چکنی چپڑی باتوں اور گمراہ کن نعروں سے متاثر ہو کر کسی نااہل اور انسانی شرف سے خالی کسی ظالم و جابر کو ہی کیوں نہ حکمراں چن لیں ۔اس پر اقبال نے اس طرح تنقید کی ہے کہ ؎ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ننانوے سادہ لوح یا جاہل لوگ نااہل کو چن لیں تو وہ عوامی نمائندہ بن گیا اور بیچارہ ایک عقلمند اور عوام کاخیر خواہ کسی ایسے شخص کے بارے میں مشورہ دے جس میں حکمراں بننے کی ساری صلاحیتیں موجود ہوں تو اس کی بات نہیں مانی جائے گی۔اب وہی نااہل جس کو ننانوے لوگوں نے چنا ہے وہ ہی ان کے لئے قانون بنانے اور اس کو نافذ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی قانون مغربی ماڈل کی جمہوری حکومت کے سائے میں بنتا ہے تو وہ اتنا ناقص ہو تا ہے کہ اس میں تبدیلی کا شق پہلے ہی سے شامل کردیا جاتا ہے ۔خود ملک عزیز میں قوانین میں ہر سال کئی تبدیلیاں ہو تی ہیں پھر بھی اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ وہ آخری ہے ۔یعنی انسانی دماغ ناقص ہے اور وہ صرف اپنے سامنے اور آس پاس کی ہی ضرورتوں کو محسوس کر سکتا ہے اس میں بھی نقص رہ جاتا ہے ۔علامہ اقبال نے مغربی طرز حکومت کی اسی کمی یا منافقت کی طرف ابلیس کی مجلس شوریٰ میں اس طرح اشارہ کیا ہے ؎ سینے میں رہے راز ملوکانہ تو بہتر کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
مغربی طرز جمہوریت ایک منافقانہ طرز حکومت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے اوپر جمہوری نقاب لگا کر محکوم قوم کو زیر کرنے کا نیا نسخہ ایجاد کیا ہے جسے عام ہندوستانی زبان میں کہتے ہیں سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے۔اسی پر اقبال گویا ہیں
؎تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن ،اندروں چنگیز سے تاریک تر
مغربی اقوام نے پورے عالم میں یلغار کے بعد ان پر اپنا بنایا ہوا نظام تعلیم تھوپا اور اس کو جدید صنعتی ترقی سے جوڑ دیا جو روز گار کا ذریعہ بنا یہ حکمت ان کے نظام کی وقتی استحکام کا سبب بنا اور جس کے ذریعہ اقوام عالم کو غلام بنانا آسان ہو گیا ۔مغربی نظام تعلیم کی ایک خرابی یہ ہے کہ وہ انسان کو مادہ پرست بناتا ہے ۔اس تعلیم سے آراستہ لوگوں کو اس سے مطلب نہیں کہ دیگر لوگوں کی فلاح وبہبود کا کیا ہوگا۔وہ صرف اپنا بندہ بے دام بن جاتا ہے اسی کو اقبال نے تعلیم کا تیزاب کہا ہے ۔ابلیس کی مجلس شوریٰ میں اقبال جمہوریت کی خرابی کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں ؎ میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کاخواب میںنے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
اقبال نے ،مذکورہ بالا شعر میں مغربی جمہوریت کا جدید ماڈل ،سیکولرزم یعنی لادینیت کی طرف اشارہ کیا ۔جمہوریت بھی ملوکیت کا جدید ایڈیشن ہی ہے۔بادشاہت میں صرف ایک شخص مختار کل ہوتا تھا اس کی زبان سے نکلا ہو الفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا ۔اب وہی چیز جدید مغربی جمہوریت میں ہے عوام اپنا نمائندہ چن کر بھیجتے ہیں جو قانون سازی کرتے ہیں ۔جبکہ یہ پوری کائنات کا خالق اللہ واحد ہے اور وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ اس کے بنائے ہوئے قانون کو مانا اور اسی پر نظام حکومت چلایا جائے ۔لیکن موجودہ نظام جمہوریت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نظام میں مذہب کیلئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے اب مذہبی اخلاقیات سے کوئی طرز حکومت خالی ہوگا تو چنگیز یت بمعنی ظلم و جبر ہی رہ جائے گا جس کااقبال نے بڑے مو ئثر انداز میں نقشہ کھینچا ہے
؎ جلال پادشاہی ہوکہ جمہوری تماشہ ہو جدا ہوں دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مذہب اور خدا سے بغاوت کے نتیجہ میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ موجودہ مغربی جمہوریت اور سیکولرزم کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔
جمہوریت کے جتنے فوائد ہمیں گنوائے اور بتائے جاتے ہیں اس میں سے ایک اور سب سے بڑا اظہار رائے کی آزادی لیکن حالات اور مشاہدات سے یہ بات بہت ہی روشن ہے کہ یہ آزادی چند شخصیات ،چند نظریات اور چند بااثر ممالک تک ہی محدود ہیں ۔دیگر کمزور اقوام وممالک کی آزادی اظہار رائے و دیگر آزادی کی بات آتی ہے تو اس کے مفہوم عام طور پر بدل جایا کرتے ہیں۔ملک عزیز میں بھی جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی اسی وقت تک ہے جب تک آپکی تحریک آپکے نظریات سے کوئی متاثر نہیں ہو رہا ہو۔لیکن جیسے ہی آپکی تحریک آپکے نظریات سے کوئی متاثر ہوا قانونی طور پر دسیوں دفعات ایسے موجود ہیں جس سے آپ کو باغی ، امن میں خلل ڈالنے والا وغیرہ جیسے الزام لگاکر آزادی ختم کردی جائے گی اور آپ پر وہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں گے جس سے چنگیز اور ہلاکو بھی شرماجائیں۔
مغربی جمہوریت کے برعکس اسلامی طرز حکومت پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہو تا ہے کہ آج سے 1436 سال قبل نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں جو چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنا ڈالی تھی جسے بعد میں خلفاء راشدین نے بحسن خوبی تیس سال سے زیادہ چلایا جو بلا شک ایک مثالی حکومت تھی ۔جس کی سب سے نمایاں خوبیوں میں یہ تھاکہ خلیفہ وقت عوام کی دولت کا مالک نہیں بلکہ اس کا امین ہوا کرتا تھا ۔کوئی بھی شخص کسی بھی وقت خلیفہ سے مل سکتا تھا ۔اسکے سامنے اپنے مسائل رکھ سکتا تھا ۔اگر اسے خلیفہ سے کوئی شکایت ہوتی تو وہ اس کا برملا اظہار کرتا یا قاضی کی عدالت میں شکایت کردیتا اور تاریخ نے دیکھا کہ خلیفہ وقت ایک عام آدمی کی طرح قاضی کے سامنے حاضر ہے گواہ پیش کرتا ہے لیکن گواہی اس وجہ سے رد کر دی جاتی ہے کیوں کہ گواہ ان کا بیٹا ہوتا ہے ۔آج کی جدید مغربی جمہوریت کی طرح اسے صرف بولنے کی ہی آزادی نہ تھی بلکہ خلیفہ وقت کیخلاف شکایت یا مقدمہ کیلئے اسے کسی پارلیمنٹ کسی اسمبلی یا کسی سپریم کورٹ سے اجازت کی ضرورت نہ تھی ۔خلیفہ وقت عام آدمی کی طرح عدالت میں حاضر ہوتے اور مقدمہ کا فیصلہ سنتے اور خندہ پیشانی سے اسے قبول کرتے ۔ایک عام آدمی اپنے شہر یا ریاست کے گورنر یا اس کے رشتہ دار کیخلاف اس کے معمولی ظلم کے خلاف شکایت براہ راست دربار خلافت میں کرتا خلیفہ وقت اسی وقت فیصلہ صادر فرماتے اور گورنر اور اس کے بیٹے کو اسی وقت سزا دیدی جاتی ۔ لیکن نہ تو عمال باغی ہوتے اور نہ ہی اس فیصلہ سے ان کے چہرے پر شکن آتا ۔فریادی کو دردر بھٹکنے وکیل کی خدمات لینے ،اور تاریخ پر تاریخ کی کوفت سے بھی نہیں گذرنا پڑتا ۔خلیفہ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ اور عوام کا خادم سمجھتے تھے ۔علامہ اقبال کہتے ہیں ۔
؎ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا فکر عمل کا انقلاب ۔پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین
خلافت راشدہ کے بعد شخصی بادشاہت کا دور شروع ہوا اگر چہ اس میں عام انسانوں کو اظہار رائے کی آزادی اور دیگر آزادی ویسی نہ تھی لیکن بہر صورت آج کے نظام حکومت سے تو ہزار درجہ بہتر تھا ہی کیوں کہ وہاں بھی کوئی بھی کسی کے خلاف مقدمہ قاضی کی عدالت میں کر سکتا تھا اور اسے انصاف جلد سے جلد مل جایا کرتا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گرچہ خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی تھی لیکن بہر حال ان کے سامنے آخرت کا تصور اتنا ہی مضبوط تھا جتنا ان سے پہلے کے خلفاء میں ،یعنی خوف خدا اور آخرت کی جواب دہی کے تصور نے انہیں حاکم ہوتے ہوئے بھی مملوک کے حقوق کا احساس تھا ۔
انسانوں میں تصور آخرت کا نہ ہونا دنیا میں بڑے بڑے فسادات کا سبب بنا ہے ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے نہ ہونے سے چنگیز اور ہلاکو جیسے انسان ننگ انسانیت بن کر دنیا میں خون کی ندیاں بہا دیتے ہیں۔ تصور آخرت سے خالی لوگ تھے جنہوں نے لاشوں کے میناروں پر کھرے ہوکر قہقہے لگائے ۔ لیکن جب ان کی ہی اولاد نے اسلام قبول کیا تو وہ انسانیت کے محافظ بن کر ابھرے اور انہوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیا کہ قیامت تک ان کا نام عزت و وقار اور عقیدت واحترام سے لیا جاتا رہے گا ۔انہوں نے انسانیت کو قعر مذلت سے نکالکر پھر وہی شرف وہی فضیلت عطا کردی جو انسانیت کا معیار مطلوب ہے ان ہی تاتاریوں کے بارے میں اقبال نے کہا ۔ ؎ ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے ۔ پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
لیکن یہ صرف تاتاریوں کے لئے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنے دین کی خدمت کیلئے کسی کو بھی کھڑا کردیتا ہے ۔اب مغرب سے وہ ہوا چلنے لگی ہے ۔ جو قوم کل تک تہذیب سے نا آشنا تھی جس کے سامنے ہمیشہ اسلام کو دہشت کا مذہب بنا کر پیش کیا گیا تھا لیکن اس کی روشن خیالی نے یہ قبول نہ کیا کہ بغیر تحقیق کے مان لیں کہ اسلام دہشت گردوں کا مذہب ہے ۔اس نے تحقیقات کی تو اسے وہ خزانے مل گئے جس سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا باب پھر سے روشن ہونے والا ہے اور عنقریب سارے پرفریب نعرے اور ازم اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں ۔آئے دن اس کی خبریں ملتی رہتی ہیں کہ کبھی کسی مشہور سائنٹسٹ اور کبھی کسی ایکٹریس نے اسلام قبول کرلیا۔اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا نظریہ ان کے سوچنے کا انداز سب بدل جاتا ہے ۔اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خود جس روشنی کو پاچکے ہیں اسے دوسروں تک پہنچانے کیلئے فکر مند رہتے ہیں یہی ہے اقبال کے نظریہ پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے ،کا حقیقی پس منظر۔کل ملا کر ہم اقبال کو بیسویںصدی میں اسلامی نظام حکومت کا بہترین وکیل کہہ سکتے ہیں ۔اقبال کے بعد ان کے اس نظریہ کو کچھ اور لوگ لے کر آگے بڑھے اور یوں کارواں چل پڑا ۔اس کارواں کی بازگشت پوری دنیا میں سنی جارہی ہے ۔اسی پر کسی نے علامہ کے ایک شعر میں کچھ تبدیلی کرکے کہا تھا کہ ؎ ہر ایک وادی میں ہے ہر ایک منزل میں ہے عشق بلاخیز کا قافلہ سخت جاں
اقبال کی صدائے درد دل کو اللہ نے اس دور میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ہر دردمند دل تک پہنچادیا ہے ۔جس کیلئے اقبال نے کہا تھا ’’محروم تماشا کو پھر دیدہ بینا دے ،دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے‘‘۔اقبال کی دعا بارگاہ ایزدی میں قبول ہوئیں جس کا ثبوت ہے کہ اب دردمند دل کو رلا رہی ہیں اور جو انہوں نے دیکھا اور محسوس کیا تھا آج کی دنیا میں ایسے لاکھوں لوگ ہیں جنہوں نے اقبال نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا تھا وہ بھی اسے دیکھ اور محسوس کرکے امت کی بھلائی کیلئے تن من دھن سے جٹے ہیں ۔مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک اسلام ہی موضوع گفتگو ہے۔ اس کے سیاسی نظام کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔اسکے تعزیری قوانین پر گفتگو ہو رہی ہے ۔معاشرے کی خرابی کا حل اسلام کے سائے میں ڈھونڈنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔گرچہ منافقین کی ایک بڑی تعداد سیاسی اسلام کے خلاف منفی تشہیر میں ملوث ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح لوگ اسلام کے سیاسی نظام کیلئے غیر محسوس طورسے عمل کرنے یا اس کے نظام تعزیر کی حمایت میں وقتاً فوقتاً اپنی حمایت کا اظہار کررہے ہیں ۔کیوں کہ اس کے علاوہ دنیا کے سامنے کوئی دوسرا متبادل ہے اور نہ ہی قیامت تک ہوگا۔اس بات کو مسلمان جتنی جلدہ سمجھ جائیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔کیوں کہ اکیسوی صدی اسلام کی ہی صدی ہے۔