نئی دہلی:وزارت مالیات کے ایک سینئر افسر نے آج بتایا کہ اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے اور حکومت اس سمت میں ضروری قدم اٹھا رہی ہے۔ اقتصادی معاملات کے سکریٹری اروند مایا رام نے کہا کہ عالمی معیشت میں کسادبازاری کا ہندوستان پر اثر پڑا ہے۔حکومت نے اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کرنے کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں لیکن ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس سمت میں مزید کوششوں کی ضرورت ہے ۔ مایا رام کٹس انٹر نیشنل کی جانب سے یہاں منعقد ایک پروگرام کو خطاب کر رہے تھے ۔ مالی سال ۱۳۔ ۲۰۱۲ میں ملک کی اقتصادی شرح ترقیات گر کر دہائی کی نچلی سطح پانچ فیصد پر رہ گئی تھی۔ وزیر مالیات پی چدمبرم نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ رواں مالی سال میں شرح ترقیات پانچ سے ساڑھے پانچ فیصد کے درمیان رہے گی۔۲۰۰۸ کے عالمی مالیاتی بحران سے قبل سالانہ شرح ترقیات ۹ فیصد سے اوپر پہنچ گئی تھی لیکن ۰۹۔ ۲۰۰۸ میں یہ بین الاقوامی اسباب کے اثرات سے ۷ء۶ فیصد پر آگئی اور گزشتہ مالی سال میں ۵ فیصد تھی جو ایک دہائی کی نچلی سطح ہے۔ مایا رام نے کہا کہ بجلی ، زراعت، تعلیم ، صحت اور ریلوے شعبے میں مشکلات بر قرار ہیں اور ظاہری طور سے ان شعبوں میںمقابلے کی صلاحیت متاثر ہے۔
مایا رام نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی بحران کے بعد ترقی یافتہ ممالک نے ایسے قانون بنائے جو بازار مقابلے کے خلاف ہیں ۔ان قوانین کے ذریعے غیر ملکی اشیاء اور خدمات کی آمد کو متاثر کر کے ان ممالک میں گھریلو صنعتوں کو تحفظ دیا گیا ہے۔ انہوںنے اسے خطرناک رجحان بتاتے ہوئے کہا کہ عالمی معیشت پر اس کے مضر اثرات پڑ سکتے ہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ اس رجحان پر قدغن لگانے کی صلاحیت عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے اداروں میں نہیں ہے۔ مایا رام نے کہا کہ مختلف شعبوں میں مقابلے کا رجحان بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ راج کاج اور زیادہ شفاف اور لوگوں کے لئے مواقع کی برابری ہو اور جوا ب دہی بڑھائی جائے ۔انہوں نے کہا کہ ضابطے بناتے وقت اس کے اثرات کے جائزے کے بند و بست سے وابستہ ہونا چاہئے کوئی قانون نافذ کرنے کے بعد اس کے جواب دہی کا بھی بند و بست ہونا چاہئے ۔تاکہ ضابطے کی افادیت بر قرار رہ سکے ۔انہوںنے کہا کہ یہ بات ایف ایس ایل آر سی ، دامودرن کمیٹی اور تاجروں کے ریگولیڑری ڈھانچے پر بھی اس طرح کی سفارشیں کی ہیں۔مایا رام نے کہا کہ حکومت ان کی سفارشات کی ان چنندہ باتوں کو نافذ کرنے پر غور کر رہی ہے جن پر نیا قانون بنانے کی ضرورت نہیں ہے ان میں قومی مقابلہ جاتی پالیسی کو تسلیم کرنے کی بات بھی شامل ہے۔