اقوام متحدہ کی ایک انکوائری سے پتہ چلا ہے کہ گزشتہ برس غزہ پر حملے کے دوران اقوام متحدہ کے سات
اسکولوں میں پناہ لیے ہوئے44 فلسطینی اسرائیل فوج کے براہ راست مارٹر حملوں اور دیگر اقدامات کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔
فلسطینی حکام نے رپورٹ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یہ انکوائری جرائم کی عالمی عدالت میں لے کر جائیں گے۔
اس انکوائری میں جو ایک آزاد بورڈ کے ذریعے کرائی گئی تھی یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطینی جنگجوؤں نے تین خالی سکولوں کو ہتھیار ذخیرہ کرنے کے لیےاستعمال کیا اور دو مرتبہ فلسطینیوں نے غالباً ان سکولوں سے فائر بھی کیے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے احاطوں اور زیر استعمال عمارتوں کا تحفظ واجب ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینوں کی طرف سے ان عمارتوں کو ہتھیار ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کرنا بھی ناقابلِ قبول ہے۔
غزہ پر گزشتہ سال کا اسرائیلی حملہ اب تک کی کارروائیوں میں سب سے تباہ کن تھا جس میں 2200 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر فلسطینی عورتیں اور بچے شامل تھے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دوران 72 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے تھے جن میں 66 فوجی تھے۔
اس تازہ انکوائری میں کہا گیا ہے کہ ایک حملے میں اسرائیلی فوج کی طرف سے چلائے گئے اٹھاسی مارٹر اقوام متحدہ کے ایک لڑکیوں کے سکول پر گرے۔ ایک اور واقعے میں لڑکیوں کے ایک اور سکول کو براہ راست ٹینک کے گولے سے نشانہ بنایا گیا اور ایک تیسرے سکول کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ پر کئی ماہ سے کام ہو رہا تھا
گزشتہ سال جولائی کی تیس تاریخ کو متعدد گولے جبالیہ ایلیمینٹری سکول کی عمارت پر گرے۔ اس عمارت کو اعلی الصبح نشانہ بنایا گیا جب یہاں تین ہزار شہری سوئے ہوئے تھے۔ جس کمرہ جماعت پر بم گرا وہ خون آلودہ کپڑوں، بستروں اور ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ انکوائری میں کہا گیا کہ اس حملے میں سترہ یا اٹھارہ فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں اقوام متحدہ کا ایک اہلکار اور اس کے دو لڑکے بھی شامل تھے۔
انکوائری میں کہا گیا کہ اسرائیل فوج کی طرف سے ایک سو پچپن ایم ایم کے ’ہائی ایکسپلوسوز‘ بم داغنے سے پہلے خبردار نہیں کیا گیا تھا اور نہ کوئی وارننگ دی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے فلسطینی پناہ گزیں کے ترجمان نے کہا کہ انکوائری سے پتہ چلا کہ اسرائیلی فوج کو متعدد بار اس بارے میں آگاہ کیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے سکول کہاں کہاں واقع ہیں اور ان کے محلِ وقوع کے بارے میں بھی تمام معلومات فراہم کی گئی تھیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے کے ترجمان کرس گنس کا کہنا تھا کہ ان میں سے کسی بھی سکول میں کوئی اسلح موجود نہیں تھا اور نہ ہی یہاں سے کوئی ہتھیار چلایا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی دو سو سات صفحات پر مشتمل رپورٹ کی سمری شائع کی گئی ہے۔
بان کی مون نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ کوئی قانونی تحقیقات نہیں ہیں۔
فلسطینی وزیر خارجہ رعد مالکی نے کہا ہے رپورٹ کو جرائم کی عالمی عدالت میں پیش کیا جائے خاص طور پر ایسے وقت جب ابتدائی تحقیقات کرنے کی فلسطینی درخواست پر غور کیا جا رہا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی اس ماہ جرائم کی عالمی عدالت کی رکن بنی ہے۔
مالکی نے رپورٹ شائع کرنے پر اقوام متحدہ کی تعریف کی اور کہا کہ انھیں اس بات پر تشویش تھی کہ اسرائیل اس رپورٹ کو دبوانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان ایمنوئل نہشان نے کہا کہ رپورٹ میں دیئے گئے تمام واقعات پر پہلے ہی تفصیلی تحقیقات کی جا چکی ہیں اور جہاں ضروری تھا ان پر فوجداری اقدامات کیے گئے ہیں اور اسرائیل ہمیشہ حساس مقامات کو نقصان پہنچانے سےگریز کرتا ہے۔