بچوں کے بچپن میں مونگ پھلی کھلانے سے مستقبل میں الرجی کے خطرات کو ڈرامائی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔یہ بات نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن ایک تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والے حقائق کے نتیجے میں کہی گئی ہے جس میں 628 بچوں پر تجربا
ت کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا ہے جنہیں اس الرجی کا خدشہ تھا۔لندن کے کنگز کالج کے میحققین نے کہا ہے کہ اس تحقیق کے نتیجے میں ثابت ہوا کہ ان بچوں میں الرجی کا خطرہ اسی فیصد کم ہوا جو کہ پہلی بار ہونے والا واقع ہے کہ کسی الرجی کے ہونے کے امکانات کو کم کیا جا سکا ہے۔2008 تک ایسے خاندانوں کو جن میں مونگ پھلی سے الرجی کا خطرہ ہوتا تھا مشورہ دیا جاتا تھا کہ وہ مونگ پھلی اور اس سے بنی چیزوں سے پرہیز کریں۔لندن میں موجود اس ٹیم نے پتا چلایا تھا کہ یہودی بچے جو اسرائیل میں پلے بڑھے اور انہوں نے بچپن سے مونگ پھلی کھانا شروع کی انہیں برطانیہ میں رہنے والے ایسے ہی بچوں کی نسبت 10 فیصد کم الرجی کے خطرات لاحق تھے۔
ان تجربات کو چار مہینے کے بچوں پر مرکوز رکھا گیا جن میں چنبل ظاہر ہو چکی تھی جو اس بیماری کی ابتدائی علامات میں سے ایک ہے۔ان بچوں کی جلد پر چھبن کے اثرات سے اندازہ لگایا گیا کہ ان میں مونگ پھلی سے الرجی پیدا ہوئی ہے یا نہیں یا ان میں کم ردِ عمل ہے اور اس کے بعد ان میں سے نصف بچوں کو مونگ پھلی کے چھوٹے ٹکڑے کھانے کے لیے دیے گئے جبکہ باقی نصف کو پرہیز کروایا گیا۔تجربات نے نشاندہی کی کہ 100 میں ہر 14 بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچتے تک الرجی پیدا کر چکے ہوتے تھے مگر اس طریقے سے یہ تناسب گر کر 86 فیصد رہ گیا تھا جو کہ 100 میں صرف دو بچے بنتے ہیں۔اس سے ایسے بچوں پر بھی فرق پڑا جن میں اس الرجی کی ابتدائی علامات ظاہر ہو چکی تھیں اور ان میں الرجی کی شرح 35 سے گر کر صرف 11 رہ گئی۔اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر گڈن لیک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بہت اہم بات ہے کہ کہ پہلی بار یہ پتا چلا کہ الرجی میں آپ بیماری کو پیدا ہونے سے روک سکتے ہیں۔ یہ روایت میں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔‘پروفیسر لیک نے کہا کہ ’اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ہماری گذشتہ ہدایات کے برخلاف اب ضروری ہے کہ ہم اپنی توجہ اس بچوں پر مرکوز کریں اور اس بیماری کا خاتمہ کریں۔‘ان نتائج نے دوسرے سائنسدانوں کو بھی متاثر کیا ہے جن کا خیال ہے کہ اس نوعیت کا علاج دوسری الرجی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے جیسا کہ انڈے کے پروٹین کی الرجی ہے۔تاہم محققین نے لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ جلدی سے جاکر مونگ پھلیاں نہ خریدنا شروع کر دیں یا مونگ پھلی والا مکھن کیونکہ اس تحقیق پر نگران اداروں نے نظر ڈالنی ہے جس سے ممکن ہے کہ تبدیلیاں اور مختلف ہدایات جاری کی جائیں۔ڈاکٹر لیک نے کہا کہ ’یہ بہت ابتدائی مرحلہ ہے تحقیق کا اور یقیناً ایسا مرحلہ نہیں ہے جہاں آپ خاندانوں کو یہ تجویز دیں۔‘