قرآن پاک کو رمضان المبارک کے مہینے سے خاص نسبت رہی ہے،کیونکہ قرآن پاک اسی رمضان المبارک کے مہینے میں نازل ہوا،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں حضرت جبریل علیہ السلام کے قرآن کریم کادور فرمایا کرتے تھے،بعد میں جب تراویح باجماعت کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ تعلق اور گہر ااور پائیدار ہوگیا ،اور الحمدللہ اب صرف رمضان المبارک کے مہینے میں جتنا قرآن پاک پڑھا جاتا ہے شایدہی سال بھر میں بھی اتنا نہ پڑھا جاتا ہو،اہل اللہ اور شائقین عبادت کے لئے یہ مقدس مہینہ موسم بہار بن کرآتا ہے،جی چاہتا ہے کہ رمضان کی مبارک ساعتیں ذکر واذکار اور تلاوت وعبادت میں گزار دیں،اور ان بابرکت مصروفیتوں میں دنیا کی کوئی مصروفیت حائل نہ ہو،اور جب یکسوئی کے ساتھ آدمی عبادت میں لگ جاتا ہے تو حیرت انگیز طور پر عبادت کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے۔تمام اہل اللہ کا تجربہ ہے کہ دل کی صفائی ،ایمانی کیفیات میں زیادتی اور انسان میں استقامت کی صفات پیدا کرنے میں سب سے زیادہ پر اثر عمل ’’قرآن کریم کی تلاوت‘‘ہے،اس لئے باتوفیق حضرات کی زندگی میں تلاوت میں استقامت سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔چنانچہ منقول ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ رمضان المبارک میں ایک دن رات میں دو قرآن کریم ختم فرماتے تھے۔(المتطرف:۲۳)،یہی معمول حضرت امام شافیؒ کا بھی نقل کیا گیا ہے۔(الفتاویٰ الحدیثیہ:۸۲)،حضرت امام مالک ؒاور حضرت سفیان ثوریؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دونوں حضرات بھی رمضان میں اپنی دیگر دینی مصروفیات کو ترک کرکے سارا وقت تلاوت قرآن میں گزارتے تھے۔(المتطرف:۲۳)امام ابوبکر بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ۳۰ سال سے ہرروز ایک قران کریم پڑھنے کا معمول بنا رکھا ہے۔(نودی علی مسلم:۱/۱۰)، تلاش وتحقیق کرنے پر سینکڑوںایسے واقعات اکابرواسلاف کے ملتے ہیں جن کا رمضان المبارک کے پاک مہینے کانزول ہوتے ہی میں عبادت وریاضت میں کثرت ہوجاتی، معمولات زندگی کو ترک کر کے اس خاص مہینے کاپوراپورا لطف اٹھاتے۔اسی کے تحت ذیل میں چند اکابرین کا تذکرہ کیا جارہا ہے کہ ان بزرگوں کا رمضان المبارک میں خاص کیا عمل تھا،تاکہ ہمارے لئے وہ مشعل راہ ثابت ہوسکے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ بزرگوں کے یہ واقعات کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت ہیں اور محض کرامت نہیں بلکہ نفس واقعہ ہیں،اکابر کے معمولات اس وجہ سے نہیں لکھے جاتے کہ سرسری نگاہ سے ان کو پڑھ لیا جائے ،یا کوئی تفریحی فقرہ ان کو کہہ دیاجائے،بلکہ اس لئے ہیں کہ اپنی ہمت کے موافق ان کا اتباع کیا جائے،اور حتی الوسع پوراکرنے کا اہتمام کیا جائے کہ ان حضرات کے افعال واقوال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جو جامع کمالات کا سچا مصداق ہیں،آپ ﷺ ہی کے مختلف احوال کا پرتو ہیں۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ:سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ خاص کر رمضان المبارک کی راتوں میں شب بیداری کا اہتمام فرماتے تھے،مغرب کے بعد دو حافظ اوابین میں سناتے ،عشاء کے بعد تراویح میں نصف شب تک تین حافظ سناتے،اس کے بعد نوافل تہجد میں دو حافظ قرآن پاک سناتے تھے،اسی طرح پوری رات گزرجاتی تھی۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ:حجتہ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ نے رمضان المبارک ۱۲۷۷ھ میں سفر حجاز کے دوران روزانہ ایک ایک پارہ یاد کر کے حفظ قرآن مکمل فرمایا تھا،پھر بکثرت قرآن پاک کا ورد رکھتے تھے اور تراویح میں بڑی مقدار میں قرآن پاک پڑھا کرتے تھے۔
حضرت مولاما رشید احمد گنگوہیؒ:قطب عالم ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کا رمضان المبارک میں مجاہدہ اس قدر بڑھ جاتا تھا کہ دیکھنے والوں کو رحم آجاتا،۷۰ سال کی عمرمیں بھی عبادت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر کے روزہ کے بعد اوابین کی بیس رکعتوں میں کم از کم دوپارے تلاوت فرماتے ،تراویح بھی نہایت اہتمام اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادافرماتے،بچے ہوئے وقت میں زبانی تلاوت جاری رہتی،تہجد میں بھی دوڈھائی گھنٹے صرف ہوتے،نماز فجر کے بعد اشراق تک وظائف ودرود میں مشغول رہتے،دن کے اکثر اوقات بھی تلاوت واذکار اور مراقبہ میں گزرتے،اس میں بھی یومیہ کم از کم ۱۵ پارے قرآن کریم پڑھنے کا معمول تھا۔
حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ :حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری ؒ رمضان المبارک شروع ہوئے ہی اپنی تمام مصروفیات (مجالس ومکاتیب وغیرہ)ختم کر کے پورے طور پر خلوت نشیں ہو کر مصروف عبادت وریاضت ہو جاتے،رات دن کے ۲۴ گھنٹے میں صرف ایک گھنٹہ آرام فرماتے،تلاوت قرآن کریم سے نہایت شغف تھا،آپ حافظ قرآن بھی تھے،اس لئے شب کا قریب قریب سارا وقت تلاوت میں صرف ہوتا،جب خود تراویح میں قرآن کریم سناتے تو دو ڈھائی بجے فراغت ہوتی اور اخیر عمر جب خود سنانا موقوف ہو گیا تو تراویح میں پورے مہینہ میں تین چار ختم سن لیا کرتے تھے،عصر ومغرب کے درمیان کا وقت عام دربار اور سب کی ملاقات کیلئے مخصوص ہوتا،اس کے علاوہ بغیر کسی خاص ضرورت کے آپ کسی سے نہ ملتے ،اور حجرہ شریف کا دروازہ بند فرما کر خلوت کے مزے لوٹتے اور اپنے مولائے کریم سے رازونیاز میں مشغول رہتے،اس لئے عشاق وزائرین نماز میں آتے جاتے آپ کی زیارت پر اکتفا کرکے طبعی سکون حاصل کرتے تھے ،ماہ رمضان میں تو اس قدر مجاہدہ بڑھ جاتا تھا کہ دیکھنے والوں کو ترس آتا تھا،افطار وسحر دونوں کا کھانا بمشکل دوپیالی چائے اور آدھی یا ایک چپاتی ہوتا تھا۔
حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ :شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی رمضان المبارک میں خاص حالت ہوتی اور دن رات عبادت خدا وندی کے سوا کام ہی نہ ہوتا،آپ اگر چہ خود حافظ نہ تھے لیکن نہایت اشتیاق کے ساتھ دیگر حفاظ کرام سے تراویح اور تہجد کے نوافل میں ساری ساری رات کلام پاک سنتے تھے،بعض تراویح میں آپ کا چھ چھ اور دس دس پارے سننے کا معمول بھی نقل کیا گیا ہے، ساری ساری رات آپ متعدد حفاظ سے کلام پاک سننے میں گزار دیتے،تہجد کی جماعت میں دیگر اہل خانہ اور متعلقین بھی شرکت کرتے،مسلسل کھڑے ہونے کی بنا پر آپ کے پائوں پر ورم آجاتا تو دل میں خوش ہوتے کہ اس سنت کی ادائیگی کی بھی سعادت حاصل ہوگئی،ایک مرتبہ کم کھانے اور طول قیام سے رمضان المبارک میں نہایت کمزور ہوگئے،پائوں کا ورم بھی بہت زیادہ ہوگیا،مگر قلبی شوق تھا کہ چین نہ لینے دیتا تھا،کثیر مقدارمیں قرآن مجید سننے کے لئے مستعد تھے،آخر لاچار ہوکر گھر کی عورتوں نے حافظ کفایت اللہ صاحب (جن سے آپ کثر قرآن سنا کرتے تھے)کو کہلا بھیجا کہ آج کسی بہانے سے تھوڑا سا ہی پڑھا کر بس کردیجئے،مولوی صاحب نے تھوڑا سا پڑھا کر اپنی طبیعت ناساز ہونے کا عذر پیش کیا،چونکہ حضر ت کو دوسروں کی راحت کا بہت خیال رہتا تھا،خوشی سے منظور کرلیا، اندر حافظ صاحب لیٹ گئے اور باہر خود حضرت آرام فرمانے لگے،مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص آہستہ آہستہ پائوں دبا رہا ہے،انہوں نے ہوشیارہوکر جب دیکھا کہ خود حضرت شیخ الہندپائوں دبا رہے ہیں تو ان کی حیرت اور ندامت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا،حافظ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے تو مولانا نے فرمانے لگے کہ نہیں بھائی کیا حرج ہے،تمہاری طبیعت اچھی نہیں ،ذراراحت آجائے گی(سوانح شیخ الہند اصغری)۔
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ:محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ باوجود کثیر علمی مصروفیات اور تصنیفی مشغولیات کے رمضان المبارک کا نہایت اہتمام فرماتے،جب تک طاقت رہی کبھی تراویح میں قرآن پاک سنانا نہیں چھوڑا،عموماََ تراویح میں قرآن پاک سواپارہ پڑھنے کا معمول رہا،جو انتہاہی ترتیل کے ساتھ پڑھا جاتا،رات میں تہجد کی نوافل میں انہماک بھی رہتی،دن کے اوقات اکثر تلاوت اور علمی انہماک میں گزارتے تھے اور جوں جوں عمر بڑھتی گئی اس اہتمام میں اضافہ ہوتا گیا۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ رمضان المبارک میں کیا لطف حاصل کیاکرتے تھے،رمضان میں اکثر خود قرآن شریف سناتے اور بلامانع کبھی قرآن سنانا نہیں چھوڑتے،نصف قرآن تک سواپارہ،پھر ایک پارہ روزانہ پڑھتے،ستائیسویں شب کو اکثر ختم کرتے،یادداشت اتنا اچھا کہ کہیں متشابہ نہیں لگتا،قرآن شریف سے طبعاََ حضرت والا کو ایسی مناسبت تھی کہ گویا ازاول تاآخر نظر کے سامنے ہے،کوئی آیت پوچھی جائے کہ کہاں آئی ہے تو بغیر کسی دیر جواب حاضر ہوتا،آپ کی تراویح کی جماعت اس قدر مجمع ہوتا کہ کوئی مغرب کے پھرتی سے کھانا کھا کرپہونچ گیا تو جگہ ملی ورنہ محروم ہوتا،اعتکاف میں بھی تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری رہتا،آپ کی مشہور کتاب ’’قصد السبیل‘‘اعتکاف ہی میں صرف آٹھ دن میں لکھی گئی،اکثر تہجد کی نماز میں ایک پارہ روزانہ پڑھنے کا معمول رہا،بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ،جب حکیم الامت تہجد کی نماز پڑھتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ ایک نور مثل صبح صادق اوپر کو اٹھتا اور سفید رنگ کے شعلے حضرت کے جسم سے باربار اوپر اڑتے(معمولات اشرفی)۔
حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ:شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ کو تلاوت سے اس قدر شغف تھا کہ رمضان کے علاوہ بھی ایک ایک دن میں دسیوں پارے پڑھنے کا معمول تھا،ایک تبلیغی اجتماع میں (جو صرف ایک رات اور ایک دن کا تھا)۳قرآن کریم ختم کئے،علاوہ ازیں رمضان المبارک میں میں یومیہ ۳۰ پارے پڑھنے کا عرصہ تک (تقریباََ ۴۲ سال تک)معمول رہا۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ:شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے یہاں رمضان المبارک کا مہینہ باغ وبہار کا زمانہ ہوتا تھا،آپ اپنے تمام دینی وسیاسی اسفار موقوف فرما کر ایک جگہ پورے ماہ قیام فرماتے اور تشنگان معرفت کو اپنے فیوض عالیہ سے پوری طرح سے مستفیض ہونے کا موقع فراہم کرتے تھے،ملک کی تقسیم سے قبل تک سلہٹ(بنگلہ دیش)میں قیام رمضان کا معمول رہا اور تقسیم کے بعد ناقدہ اور بانسکنڈی(آسام)میں قیام فرماتے رہے،دن میں زیادہ تر وقت تلاوت ،اصلاح اور ارشاد میں گزارتے،عصر کے بعد قرآن کریم کا دورفرماتے،اس کے بعد افطار تک استغراق کی حالت میں رہتے،مغرب کے بعد ۲رکعت نفل نہایت طویل ادافرماتے،تراویح کی امامت عموماََ خود ہی نہایت اطمینان کے ساتھ فرماتے اور ہر تراویح میں کافی دیر توقف فرماکر ذکرواذکار میں مشغول رہتے،تراویح کے بعد مختصر واعظ ہوتا جس میں بہت بڑا مجمع شریک ہوتا،آپ کے یہاں
تہجد کی باجماعت ادائیگی کا معمول تھا،ایک قرآن پاک آپ خود پڑھتے،دوسرا مولانا جلیل صاحب مرحوم پڑھا کرتے تھے،ہر سورۃ کے شروع میں جہرا بسم اللہ پڑھنے کا بھی معمول تھا۔اخیر عمر تک آپ کے مجاہدات میں کوئی فرق نہیں آیا،ٹانڈہ کے قیام کے زمانہ میں گرمی سخت تھی،پھر ضعف اور مرض کی وجہ سے خشکی کی بنا پر آپ کے لئے پڑھنا دشوار ہوتا تھا،لیکن اس حال میں بھی آپ نے پورا کلام پاک اسی شان کے ساتھ سنایاجو آپ کا امتیاز تھا،رمضان میں متوسلین کے جھرمٹ میں رہنے کے باوجود آپ کا انقطاع عن الخلق قابل رشک تھا اور وہ اور وہ کیفیت رہتی تھی جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا،آخری رمضان میں آپ بانسکنڈی(آسا م)میں گزارا،یہاں تراویح میں آپ کے منجھلے صاحب زادے حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ العالی(صدر جمعیۃ العلماء ہند)نے پہلی مرتبہ قرآن پاک سنانے کی سعادت حاصل کی۔
حضرت قاری صدیق احمد باندویؒ:خادم القرآن حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندویؒ کو بھی تلاوت قرآن سے بے حد شغف تھا،اسفار میں مسلسل تلاوت جاری رہتی اور دسیوں پارے تلاوت فرما لیتے،رمضان المبارک کے مہینے میں یہ اہتمام مزید بڑھ جاتا،آپ کے بعض سوانح نگاروں نے واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک اہل بدعت کے علاقہ میں تراویح سنانے تشریف لے کئے،تو ایک ہی رات تراویح میں ۲۱ پاروں کی تلاوت فرمادی۔(تذکرہ الصدیق ۱/۴۱۷)۔
حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ:بانی جماعت تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ رمضان المبارک میں عبادت وریاضت اور تلاوت میں بہت اضافہ فرمادیتے،مغرب کے بعد اوابین اتنی طویل ادافرماتے کہ اکثر عشاء کی اذان ہوجاتی،تراویح خود ہی پڑھاتے،اس کے بعد کچھ آرام فرماکر تہجد کے لئے اٹھ جاتے اور سحری ختم ہونے تک درودوظائف میں مشغول رہتے،پھر قدرے آرام فرما کر تبلیغی جماعتوں کی ترتیب اور رخصتی وغیرہ میں مشغول رہتے،رمضان بھر عصر کے بعد سے مغرب تک ذکر جہری کا معمول رہتا،جبکہ ٖغیر رمضان میں اخیر شب میں ذکر فرماتے ۔
حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ:محدث کبیر حضرت علامہ مولانا محمد یوسف بنوریؒ خود فرماتے ہیں کہ ایک قاری صاحب جو میرے دوست تھے،میری ملاقات کیلئے تشریف لائے،رمضان شریف کے آخری ایام تھے،وہ بڑا نفیس قرآن پڑھتے تھے،میں نے کہا بجائے وقت گزارنے کے چلو نفل پڑھتے ہیں،چنانچہ ان قاری صاحب نے نفل کی نیت باندھ لی اور میں نے اقتدا کی ،بس تو پھر کیا پوچھنا وہ تو پڑھتے چلے گئے اور میں لطف اٹھاتا چلا گیا،وہ اکسپریس گاڑی کی طر سورتوں کے اسٹیشن طے کرتے چلے گئے اور سحری سے پہلے پورے قرآن کریم دورکعتوں میں ختم کر ڈالا۔(بینات،بنوری نمبر ۷۰۶،مضمون قاری رفیق صاحب)۔
حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب:رہبر ملت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب دامت برکاتہم(امیر شریعت سادس امارت شرعیہ بہار وجنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ) بھی رمضان المبارک مہینے کا خاص اہتمام فرماتے،آپ کوتلاوت قرآن سے بے حد شغف ہے،غیر رمضان میں ایک ایک پارہ روزانہ پڑھنے کا معمول رہتا،رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی اس میں اضافہ ہوجاتااور دو،تین پارہ یومیہ پڑھنے کامعمول ہوتا،عمر کے ۹۰سال میں ضعف ونقاہت کے باوجودپابندی سے روزہ کااہتمام فرماتے، نماز تراویح بھی متعلقین کے سہارے مسجد میں جاکرنہایت ہی خشوع وخضوع کے ساتھ اداکرتے ،پہلے تہجد کااہتمام فرماتے لیکن ادھر کمزوری کی وجہ سے تہجد ادا نہیں کرتے،کبھی کبھی صحت میں انشراح ہوتی تو تہجد بھی مزے لے کر پڑھتے ،سحر میں چائے اور بسکٹ کاخاص اہتمام فرماتے۔راقم الحروف کو بھی رمضان المبارک میں دودن اور ایک شب حضرت مدظلہ کے ساتھ گزارنے کا شرف حاصل ہوا ہے،میں نے بخوبی حضرت کے معمولات رمضان المبارک کا مشاہدہ کیا ہے،آپ فرماتے ہیں کہ رمضان میں روزے دار کو ان امور کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔(۱)نفس کوقابو میں رکھے(۲)زبان کو جھوٹ، غیبت، چغلخوری اور فحش گوئی سے محفوظ رکھے(۳)حسد وکینا سے ہر ممکن پرہیز کرے(۴)اپنے عضاء کوگناہوں سے پاک رکھے(۵)افطار حلال کمائی سے ہی کرے ورنہ روزہ کامقصد حاصل نہ ہوگا(۶)افطار کے وقت دعائوں کاخاص اہتمام ہو(۷)لڑائی جھگڑے سے اپنے آپ کومحفوظ رکھے(۸)اپنے معاملات کو چاہئے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم صاف رکھے۔
حضرت مولانا اشتیاق احمد:حضرت شیخ زکریاؒ کے خلیفہ مجازشیخ الحدیث حضرت مولانا اشتیاق احمدمدظلہ(مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور)کو بھی تلاوت قرآن پاک سے خصوصی شغف ہے،رمضان المبارک میں زیادہ وقت قرآن کریم کی تلاوت میں صرف کرتے،افطار مدرسہ کے اساتذہ وملازمین کے ساتھ کرنے کا معمول ہوتا،مدرسہ جامع العلوم میں ہی اعتکاف میں آپ کے ساتھ تقریباََ دو سو سے زائد افراد شریک ہوتے اور آپ سے فیضیاب ہوتے،راقم الحروف کو حضرت مدظلہ سے خصوصی شغف ہونے کی وجہ سے اعتکاف میں یہاں دو دن گزارنے کاشرف حاصل رہا ہے،اس وقت یہاں کا پرنورمنظر قابل دید ہوتاہے ،حضرت مولاناتراویح کے علاوہ خاص طور سے دوران اعتکاف تہجدمیں بھی قرآن پاک سننے کاخاص اہتمام فرماتے،سحری میں جو میسر ہوجائے نوش فرمالیتے۔
معلوم ہوکہ قرآن کریم کا ایک پارہ ترتیل کے ساتھ ۲۰ منٹ میں اور قدرے تیزی کے ساتھ اوسطاََ ۱۵منٹ میں پڑھا جاسکتا ہے،تو اگر ایک گھنٹہ میں فرض کیجئے کہ ۴ پارے بھی پڑھے گئے تو سارے سات گھنٹہ میں قرآن کریم مکمل ختم کیا جاسکتا ہے اور زیادہ تیز پڑھنے والا ہوتو مسلسل پڑھنے پر چھ گھنٹے میں ختم کرسکتا ہے،عقلاََ یہ کسی طرح مستبعد نہیں ہے اور رہ گئی یہ بات کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کرنے سے منع کیا ہے،تو جمہور علماء کے نزدیک یہ ممانعت مطلق نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ہے جب کہ طبیعت میں نشاط نہ ہو یاقرآن کے پڑھنے میںحروف و مخارج کی رعایت نہ رکھی جائے،اگر یہ ممانعت مطلق ہوتی تو جلیل القدر حضرات صحابہ سے تین دن سے کم میں ختم قرآن منقول نہ ہوتا جیسا کہ سیدنا حضرت عثمان غنی اور حضرت تمیم داری سے منقول ہے(دیکھئے امداد الفتاویٰ)۔(یو این این)