تیشہ فکر عابد انور
امت شاہ کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت اور اعظم خاں پر پابندی برقراررکھنے کے فیصلے سے اس بات کوتقویت ملی ہے کہ الیکشن کمیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے اشاروں پر رقص کر رہاہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن نے بھارتیہ جنتاپارٹی کے تئیں اپنی نرمی کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ اس سے قبل گزشتہ سال دسمبر میں اختتام پذیر پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی لیڈروں کے ساتھ اسی طرح ہمدردی کامظاہرہ کیا تھا اورنریندر مودی اور ان کی پارٹی کے لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات پرصرف وارننگ دیکر چھوڑ دیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈرسبرامنیم سوامی نے گزشتہ سال 16 جولائی کو ایک انگریزی روزنامہ کے لئے ایک مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے اپنے مضمون میں اسلامی دہشت گردی کو ملک کی اندرونی سلامتی کے لئے سب سے بڑا چیلنج بتایا تھا۔
انہوں نے مسلمانوں سے ووٹنگ کا حق چھین لئے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں ملک مخالف قرار دیا تھا۔ ابھی حال ہی وشو ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری پروین توگڑیا نے اپنی اشتعال انگیز تقریر کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں وزیر اعظم بنا تو میں مسلمانوں سے ووٹ کا حق چھین لوں گا۔ اس سے قبل وہ اسی طرح کی اشتعال انگیز تقریر کرچکے ہیں لیکن اس وقت چوں کہ انتظام و انصرام الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے اس لئے الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی وہ اس پر سخت کارروائی کرتا ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ وہ توگڑیا کے خیالات سے اتفاق کرتاہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن نے بھارتیہ جنتاپارٹی کے رکن اسمبلی ہیرالال پر اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی ؟ جب کہ انہوں نے نہ صرف کانگریس کی صدر محترمہ سونیا گاندھی کی شان میں انتہائی بے ہودہ الفاظ کا استعمال کیا تھا بلکہ انہیں برہنہ کرکے گھمانے کی تہذیب و تمدن اور انسانیت سے عاری بات تک کہی تھی لیکن اس پر نہ صرف پورا میڈیا خاموش رہا بلکہ خواتین کے حقوق کاپرچم بلندکرنے والی تنظیم کو بھی سانپ سونگھ گیا ۔ کیوں کہ مقننہ، مجلس انتظامیہ ،عدلیہ اور میڈیا مودی کو ہر حال میں ہندوستان کا وزیر اعظم بنانا چاہتا ہے۔ اس لئے اسے سرے سے نظر انداز کردیا۔ یہ نہ صرف قابل مواخذہ جرم ہے بلکہ معاشرتی اعتبار سے بھی خواتین کے تئیں منفی سوچ کا غماز ہے اور ایسے لوگ اگر برسراقتدار آگئے تو خواتین کا کیا حشر ہوگا اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا۔ اسی طرح ہوگا جس طرح رام سینا کے سربراہ پروین متالک اور اس کے غنڈے سرے عام خواتین کے ساتھ بدتمیزی،بدسلوکی اورگالی گلوچ کرتے تھے۔انہوں نے یہ حرکت اس وقت تک کی تھی جب تک کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت تھی اور اس طرح کے بدسلوکی کے واقعات ہر اس جگہ پیش آئے جہاں بی جے پی کی حکومت تھی۔اسی طرح بی جے پی کے اس وقت کے صدر نتن گڈکری نے 8جولائی 2012کو دہرہ دون میں ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس سے پوچھا تھا کہ وہ افضل گرو کا اس طرح دفاع کررہی ہے جیسے وہ اس کا داماد ہو۔اسی طرح انہوں نے 15جون 2011 کو کانگریس پر سخت تنقیدکرتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس بن لادن کی اولاد ہے اور اپنی بدتمیزی جاری رکھتے ہوئے آگے کہا تھاکہ کانگریس’ منی ‘ سے بھی زیادہ بدنام ہے۔ گجرات کے وزیر اعلی نریندرمودی نے 2007کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کی شان میں بدتمیزی کرتے ہوئے کہا تھاکہ انہیں یہاں (گجرات میں) کوئی ڈرائیور رکھنابھی پسند نہیں کرے گا۔19 اپریل 2014کو نتن گڈکری نے بہار انتخابی مہم کے دوران ایک پریس کانفرنس میں اپنی بے لگام زبان کا استعمال کرتے ہوئے کہہ دیا تھاکہ ذات پات بہار کے ڈی این اے میں ہے لیکن جیسے ہی یہ احساس ہوا کہ اس سے بی جے پی کے ووٹ پر منفی اثر پڑے گا انہوں نے فوری طور پر اس سے انحراف کیا۔بی جے پی کے ہی لیڈر اور سابق وزیر گری راج سنگھ نے بی جے پی کے سابق قومی صدرنتن گڈکری کی موجودگی میں 19 اپریل 2014کو جھارکھنڈ کے گڈا پارلیمانی انتخاب میں تقریرکرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ مودی کی مخالفت کررہے ہیں انہیں انتخابات کے نتائج کے بعد ملک چھوڑنا ہوگا۔ انہوں نے مسلمانوں کا نام لئے بغیر کہا نریندرمودی کے حامیوں کے لئے اچھے دن آئیں گے مخالفین کو ملک سے بھگا دیا جائے گا۔ انہوں نے پاکستان بھگادینے تک کی بات کہی۔ پاکستان بھگانے کا لفظ صرف مسلمانوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات خود وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ جولوگ نریندرمودی کو روکنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان کے لئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ ان کے لئے صرف پاکستان میں جگہ بچے گی۔اس کھلم کھلا اور دھمکی آمیزبیان کے بعد بھی کوئی گنجائش بچتی ہے کہ نہ صرف ان لیڈروں پر انتخابی پابندی عائد ہونی چاہئے بلکہ پارٹی کی منظوری کو بھی معطل کیا جانا چاہئے اگر ہندوستان میں امن و قانون یا جمہوریت نام کی کوئی چیز ہے اور الیکشن کمیشن ہندوستانی آئین پر یقین رکھتا ہے تو ان لیڈروں اور ان کی پارٹی کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔
الیکشن کمیشن نے اسی دہرے پیمانے کا ثبوت امت شاہ اور اعظم خاں کے معاملے میں دیا ہے۔ جب کہ الیکشن کمیشن سے امت شاہ کی تقریر کو انتہائی اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے اتر پردیش کے چیف سکریٹری کو مکتوب ایک خط میں کہا تھا ،’’ اتر پردیش کی حکومت کے وزیر اعظم خان اور بی جے پی کے لیڈر امت شاہ اپنے انتخابی مہم کے دوران انتہائی اشتعال انگیز تقریر کر رہے ہیں۔ کمیشن نے اس معاملے کو سنجیدہ اور تشویش ناک پایا ہے ۔ ان کے ایسے بیانات باہمی رنجش ، نفرت اور مختلف مذہبی فرقوں میں شک و شبہ کی صورت حال پیدا کر رہے ہیں ۔’’کمیشن نے اعظم خان کے بارے میں ریاستی حکومت کے ڈھیلے رویہ پر بھی تنقید کی تھی۔ کمیشن نے اپنے خط میں لکھا کہ کمیشن نے امت شاہ کو سات اپریل اور اعظم خان کو نو اپریل کو نوٹس جاری کیا تھا۔ ان نوٹسوں کے باوجود اعظم خان ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قابل اعتراض اور اشتعال انگیز تقریرکر رہے ہیں ۔ الیکشن کمیشن نے کہا ، ’’ کمیشن نے پایا کہ ریاست کی انتظامیہ نے پوری تیاری سے ان دونوں رہنماؤں کے خلاف جہاں ضروری تھا ایف آئی آر درج نہیں کیا ۔ خاص طور پر ایسا لگتا ہے کہ اعظم خان کے خلاف ابھی تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔ کمیشن کا خیال ہے کہ ریاستی حکومت ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے میں نرم رویے سے کام لے رہی ہے۔ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ ان تمام عوامی جلسوں ، ریلیوں ، جلوس اور روڈ شو جس میں یہ دونوں لیڈر حصہ لے رہے ہوں ان کو انتظامی اجازت نہیں دی جائے ۔ یہ تاکید بھی کی گئی کہ ان کی ایسی تمام سرگرمیوں کو جس سے امن و قانون میں خلل پڑسکتی ہے ، ان کو روکنے کے لئے پولیس مختلف دفعات کے تحت کارروائی کو یقینی بنائے ۔ریاستی حکومت نے امت شاہ کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے ( مذہب کی بنیاد پر مختلف فرقوں میں دشمنی کو فروغ دینا ) اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 125 ( انتخابات کے سلسلہ میں مختلف طبقوں میں دشمنی پھیلانا ) کے تحت دو ایف آئی آر درج کرائی تھی۔اگر ہم ایسے معاملات میں قانون کے التزام پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں لگتا ہے کہ وہاں پر اس معاملے میں بالکل واضح ہے۔ مثلا دفعہ 153 اے کے تحت کسی بھی دو فرقوں میں مذہب کی بنیاد پر دشمنی کو فروغ دینا ایک مجرمانہ معاملہ ہے۔ اگر ہم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے 16 ستمبر 2002 کو جاری بیان کو غور سے دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ہندوستان کی تعزیرات ہند کی دفعہ 153 کے تحت فساد پھیلانے کی نیت سے دئے گئے اشتعال انگیز بیان کے لئے کریمنل کیس چلایا جا سکتا ہے، اسی طرح سا لمیت اور یکجہتی کو خطرے میں ڈالنے والے بیانات پر (دفعہ 153 بی) یا کسی دوسرے شخص کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لئے جان بوجھ کر دیے گئے بیان (دفعہ 29 بی) پر کارروائی کی جا سکتی ہے۔ دفعہ 505 (1)، بی اور سی کے تحت عوامی طور پر نقص امن کے لئے کارروائی کی جا سکتی ہے تو مختلف طبقوں کے اندر دشمنی، نفرت یاامتیا زکرنے والے بیانات پر دفعہ 505/2 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔اس کے باوجود الیکشن کمیشن کسی بھی بھگوا لیڈر کے خلاف کارروائی کرنے میں روز اول سے ہی ناکام رہا ہے۔
سماج وادی پارٹی نے الیکشن کمیشن پر الزام لگایا کہ وہ بی جے پی کے لئے کام کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے رویہ سے یہ الزام نہ رہ کر حقیقت کا روپ لے لیا۔ کانگریس نے کہا کہ شاہ اور ایس پی لیڈر اعظم خاں کے بیانات یکساں طور پر فرقہ وارانہ ہیں کارروائی بھی یکساں ہونی چاہئے۔الیکشن کمیشن نے دونوں رہنماؤں کے نفرت تقاریر، مذہبی جذبات بھڑکانے کی وجہ سے ان کے انتخابی مہم کرنے پر روک لگا دی تھی۔ ایس پی اور کانگریس نے جمعہ کو الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی مخالفت کی، جس میں اس نے بی جے پی جنرل سکریٹری امت شاہ کی تشہیر ی مہم چلانے اور عوامی ریلیاں کرنے پر لگی پابندی ہٹا لی۔ اعظم خاں نے کہا کہ کمیشن نے ان کے جواب پر غور نہیں کیا۔ اعظم نے کہا، کہ انہوں نے میرے جواب پر غور نہیں کیا اور میرے خلاف بہت سخت فیصلہ کیا۔کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ اعظم خان اور امت شاہ نے جو کہا ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امت شاہ کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر سی بی آئی تحقیقات کر رہی ہے۔ سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں امت شاہ پر کئی سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ سی بی آئی کی چارج شیٹ کے مطابق امت شاہ پر قتل، تاوان، اغوا اور مجرمانہ سازش رچنے کے الزام ہیں۔ سپریم کورٹ امت شاہ پر گجرات میں داخل ہونے پر پابندی بھی لگاچکی ہے۔جب کہ اعظم خاں کے خلاف اس طرح کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اس کے باوجود الیکشن کمیشن کاامتیاز برتنا بہت کچھ اشار کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں وزارت داخلہ کی طرف سے 1997 میں’’ مذہبی خیرسگالی‘‘ کو فروغ دینے کے لئے جاری ہدایات پر غور کریں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے معاملے میں وہ ریاستی مشینری کی ذمہ داری کو طے کرتا ہے۔ ہدایات نمبر 15 کہتا ہے کہ’’ ایسی واردات واقعات کو دوبارہ اور فوری طور پر روکنے کے لئے ضلع انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مناسب قدم اٹھائے‘‘۔ اس ضمن میں اگر ہم ہندوستان کی حکومت کی طرف سے سال 1979 میں منظور شدہ شہری اور سیاسی حقوق کے لئے پیش کیئے جانے والے بین الاقوامی معاہدے کو دیکھیں تو وہاں بھی حکومت نے اس بات کے لئے اپنے آپ کو پابند عہد کیا ہے کہ وہ’’ تعصب، باہمی امتیاز یا تشدد کو فروغ دینے والی اندھی قوم پرستی ، نسلی اور مذہبی منافرت پھیلانے والے اقدامات‘‘ پر قانون کے تحت پابندی عائد کریں گے۔لیکن یہ تمام قوانین اور عہد بندی وعدے وعید سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اکبرالدین اویسی کے معاملے میں کارروائی کرکے انہیں فوراً جیل بھیج دیا گیا تھالیکن پروین توگڑیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ شیو سینا اور مہاراشٹر نونرمان سینا آئے دن مسلمانوں اور بہار اور یوپی والوں کے خلاف نسلی تعصب کی بات کرتی رہتی ہے لیکن آج تک ان کے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ راجستھان کی وزیر اعلی وسندھراراجے نے عمران مسعود کے مبینہ بیان پر دھمکی دیتے ہوئے کہا تھاکہ الیکشن کے بعد پتہ چلے گا کہ کون کٹے گا اور کس کو کاٹا جائے گا۔ اس بیان کے خلاف الیکشن کمیشن میں شکایت بھی کی گئی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی۔
قدرتی طور پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ قانون کے اتنے سارے پرالتزامات کے باوجود یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی طرف سے اس معاملے میں جاری ہدایات کے باوجود آخر نفرت پھیلانے والے بیان پر کارروائی کیوں نہیں کی جاری ہیں؟ اگر ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاتی تو نہ توامت شاہ پیداہوتے اور نہ ہی ورون گاندھی۔ اسی کے ساتھ بی جے پی کے لیڈروں کی یہ بدتمیزی اس بات کااشارہ ہے کہ میڈیا نے ان کے لئے جو لہر پیدا کی ہے وہ صرف مصنوعی ہے اور اس غبارے سے ہوا نکل رہی ہے۔ ہندوستان کے عوام اور بالخصوص مسلمان ہمیشہ کی طرح سیکولرزم کی لاج بچائی ہے اس الیکشن میں بھی وہ سیکولرزم کے اعلی اقدار کی حفاظت کے لئے آگے آگئے ہیں۔ بہار کے سابق وزیر گری را ج سنگھ اور اجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے کے بیانات کا گہرائی سے جائز لیں تو یہ بات سمجھ میںآتی ہے کہ یہ لوگ مایوس ہیں اور مایوسی کے عالم میں وہ اس طرح کے دل آزار بیانات دے رے ہیں جس کی پوزیشن مستحکم ہوتی ہے وہ اس طرح کے اشتعال انگیز کا سہارا کبھی نہیں لیتے۔ بی جے پی نے اس بار اپنا ایجنڈہ ترقی کو بنایا تھا لیکن وہ الیکشن کی تاریخ قریب آتے آتے اس میں رام مندر اور دفعہ 370اور یکساں سول کوڈ کو شامل کرلیا۔ویسے بی جے پی کی تاریخ رہی ہے وہ کبھی بھی ایک خاص موضوع پر انتخاب نہیں لڑی ہے اور وقت اور حالات کے ساتھ اس نے نہ صرف اس نے اپنے نظریہ کو تبدیل کیا ہے بلکہ موضوع اور موقف بھی تبدیل کیا ہے۔اب اس کی ساری توجہ اشتعال انگیزی اور بدتمیزی تک محدود ہوگئی ہے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com