دکھی انسانیت کی مسیحائی ایک مقدس کام ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں ڈاکٹروں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، مگر امریکا میں ڈاکٹری ذلّت آمیز پیشہ بن گیا ہے۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ مریضوں کو جینے کا حوصلہ دینے والے ڈاکٹر اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگیوں کا خاتمہ کررہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں سالانہ 300 ڈاکٹر ڈپریشن میں مبتلا ہوکر خود کشی کرتے ہیں۔ اپنے مستقبل سے مایوس امریکی ڈاکٹر اس پیشے کو خیرباد کہہ کر دوسرے شعبوں کا انتخاب کررہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا میں ’’ فزیشن ایم بی اے پروگرام ‘‘ مقبول ہورہے ہیں۔ یہ پروگرام مکمل کرنے والے ڈاکٹر انتظامی شعبوں میں روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔ امریکا میں ڈاکٹروں کو متبادل روزگار کے حصول میں معاونت فراہم کرنے والی متعدد ویب سائٹ کام کررہی ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ہر دس میں سے نو ڈاکٹر اس پیشے کو اپنانے کی خواہش رکھنے والے نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ اس تمام صورت حال کی ذمہ داری ہیلتھ کیئر سسٹم کی خرابیوں پر عائد ہوتی ہے۔
امریکا میں صحت کا شعبہ عرصۂ دراز سے ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران صدر باراک اوباما نے عوام سے شعبۂ صحت میں اصلاحات کرنے کا وعدہ کیا تھا جو اب تک وفا نہ ہوسکا۔ اہم بات یہ ہے کہ ہیلتھ کیئر کے ناقص نظام کے اثرات سے اسپیشلسٹ ڈاکٹر اور سرجن محفوظ ہیں۔ امریکا میں ریڈیالوجسٹ، اوپتھلمولوجسٹ اور پلاسٹک سرجنوں پر ڈالروں کی بارش ہورہی ہے تو دوسری جانب ایم بی بی ایس کی ڈگری رکھنے والے عام ڈاکٹروں کے لیے گزارہ کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ امریکا میں ان کے لیے بنیادی یا پرائمری ڈاکٹر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے ڈاکٹروں بالخصوص ان ڈاکٹروں کے لیے صورت حال بدتر ہوتی جارہی ہے جو حکومت سے ہیلتھ انشورنس وصول کرتے ہیں۔ میری لینڈ یونی ورسٹی میڈیکل سینٹر کے سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور جنرل فزیشن ڈاکٹر اسٹیفن شمف کے مطابق، جو شعبۂ صحت کی خامیوں پر کتاب بھی لکھ رہے ہیں، ڈاکٹر کو ہر مریض کے انشورنس فارم کے ساتھ 58 ڈالر فیس کی مد میں جمع کروانے پڑتے ہیں۔ وہ مریض سے اتنی معائنہ فیس وصول نہیں کرتا جتنی کہ انشورنس حاصل کرنے کے لیے جمع کروانی پڑ جاتی ہے۔
چنانچہ ڈاکٹروں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مریض دیکھیں، بہ صورت دیگر انھیں کھانے کے لالے پڑجاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مریض دیکھنے کی مجبوری کی وجہ سے وہ ہر مریض کو اوسطاً بارہ منٹ سے زیادہ وقت نہیں دے پاتے جس سے مریضوں کا بھی نقصان ہوتا ہے۔
اس صورت حال سے ڈاکٹر اور مریض دونوں ہی خوش نہیں ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ Affordable Care Act کے ذریعے ہر کسی کو ہیلتھ انشورنس خریدنے کا پابند کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹروں کو انشورنس کلیم حاصل کرنے کے پیچیدہ طریقۂ کار سے آگاہ بھی نہیں کیا جاتا۔ انشورنس کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات نے کتنے ہی ڈاکٹروں کو اپنے کلینک بند کرکے ملازمت اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اسپتالوں میں مریضوں کے رش کی وجہ سے ڈاکٹروں کے لیے ہر مریض کو مناسب وقت دینا ممکن نہیں۔
دوسری جانب ان کی تنخواہوں کو مریضوں کی تسلی و اطمینان سے منسلک کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہوگئی ہے۔ اگر مریض کسی ڈاکٹر سے مطمئن نہیں ہوگا تو اس کی ’ میڈی کیئر پیمنٹ ‘ میں کٹوتی کردی جائے گی۔ لہٰذا اسے مریض کو مطمئن بھی کرنا ہے اور مقررہ وقت میں زیادہ سے زیادہ مریض بھی دیکھنے ہیں۔ ایک طرح سے ڈاکٹر کو مریض کے ہاتھوں یرغمال بنادیا گیا ہے جس کی کسی بات سے وہ انکار نہیں کرسکتا۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر کو روزانہ بلامبالغہ انشورنس اور دیگر قسم کے سیکڑوں فارمز پر دستخط کرنے پڑتے ہیں۔ دوسری جانب کمپیوٹر اسکرین پر بھی تواتر سے مختلف قسم کی ای میلز موصول ہوتی رہتی ہیں جن کا انھیں فوری جواب دینا ہوتا ہے۔ اور مختلف قسم کے فارمز بھی نمودار ہوتے رہتے ہیں جنھیں فوری پُر کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انشورنس کمپنیوں کے ساتھ تمام معاملات نمٹانے کی ذمہ داری بھی ڈاکٹر ہی کی ہوتی ہے۔ بیشتر اوقات انھیں یہ تمام امور اپنے اوقات کار کے بعد بھی انجام دینے پڑتے ہیں۔
ڈاکٹروں کو درپیش مشکلات کی سنگینی کو بڑھانے میں ذرائع ابلاغ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر انھیں ایسے کاموں کے لیے بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جن پر ان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اسپتال میں اگر فرنیچر ٹوٹا ہوا ہے تو اس کا ذمہ دار ڈاکٹر ہے، اگر مریض وہیل چیئر سے مطمئن نہیں ہے تو اس کی ذمہ داری بھی انتظامیہ کے بجائے ڈاکٹروں کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔ اگر لیب ٹیسٹ منہگے ہیں تو اس کے ذمہ دار بھی ڈاکٹر ہی ہیں۔
ان کے علاوہ بھی ڈاکٹروں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے جنھیں حل کرنے کے لیے نہ تو حکومت اور نہ ہی ’’ امریکن بورڈ آف انٹرنل میڈیسن‘‘ تیار ہے۔ اس تمام صورت حال میں ڈاکٹروں کا ڈپریشن میں مبتلا فطری امر ہے، اور اگر سالانہ 300 ڈاکٹر خودکشی کررہے ہیں تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔