امریکا نے ایران میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف 5 روز تک جاری رہنے والے احتجاج کے دوران انٹرنیٹ بند کرنے پر ایران کے وزیر اطلاعات پر پابندیاں عائد کردیں۔
برطانوی خبررساں ادارے ‘ رائٹرز ‘ کی رپورٹ کے مطابق ایران میں احتجاج کے دوران انٹرنیٹ کی بندش سے مظاہرین کی جانب سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز پوسٹ کرکے حمایت حاصل کرنا مشکل ہوگیا تھا۔
علاوہ ازیں انٹرنیٹ کی بندش سے ایران میں ہونے والے احتجاج کی شدت سے متعلق مصدقہ اطلاعات کا حصول بھی مشکل ہوگیا تھا۔
تاہم ایران نے 2 روز قبل کہا تھا کہ انٹرنیٹ بحال کرنے کا آغاز کردیا گیا ہے۔
امریکا کے محکمہ خزانہ کے مطابق ایرانی وزیر محمد جواد آذری جھرومی نے عہدے پر رہتے ہوئے ایران کی ‘ جارحانہ انٹرنیٹ سنسرشپ کی پالیسی کو بڑھادیا ہے’۔
امریکی محکمے نے ایرانی وزیر کو سابق انٹیلی جنس عہدیدار قرار دیا جو اپوزیشن کارکنوں کے خلاف نگرانی میں ملوث رہے۔
سیکریٹری خزانہ اسٹیون منوچن نے ایک بیان میں کہا کہ ‘ ایران کے رہنما جانتے ہیں کہ آزاد انٹرنیٹ سے ان کی قانونی حیثیت بے نقاب ہوجائے گی اس لیے وہ حکومت مخالف مظاہروں کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی بند کردیتے ہیں’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ ہم ایران کے وزیر برائے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشنز ٹیکنالوجی پر انٹرنیٹ رسائی بند کرنے، میسیجنگ ایپلی کیشن جس کی مدد لاکھوں ایرانی ایک دوسرے سے اور بیرونی دنیا سے رابطے میں ہیں،اس کی بندش پر پابندی عائد کررہے ہیں’۔
امریکی محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ ایرانی وزیر محمد جواد آذری جھرومی پر عائد پابندیوں میں امریکی حدود میں جائیداد منجمد کرنا اور امریکی افراد سے کسی بھی قسم کے معاملات سے روکنا شامل ہیں۔
مذکورہ اعلان کے بعد ایرانی وزیر محمد جواد آذری جھرومی نے کہا کہ ‘ میں پہلا شخص نہیں جس پر پابندی لگائی گئی ہے، مجھے سے پہلے ایران آئی سی ٹی اسٹارٹ اپس، ڈیویلپرز، کینسر کے مریضوں اور وہاں موجود ایپی ڈرمولائسز بولیوسا کا شکار بچوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی تھیں’۔
انہوں نے کہا کہ میں انٹرنیٹ تک رسائی کی وکالت جاری رکھوں گا اور امریکا کو ایران کی ترقی روکنے نہیں دوں گا۔
واضح رہے کہ ایران کی حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے غیر متوقع فیصلے کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے۔
ایران کی حکومت نے کہا تھا کہ ابتدائی 60 لیٹر پر 50 فیصد اضافہ ہوگا اور ہر ماہ اس سے تجاوز پر 300 فیصد اضافہ ہوگا۔
قیمتوں میں اضافے کے بعد سیرجان کے علاوہ دیگر شہروں ابادان، اہواز، بندر عباس، برجند، گجساران، خرمشہر، مشہر، مشہد اور شیراز میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا۔