واشنگٹن۔اامریکا کی اوباما انتظامیہ نے شام کے خطرناک کیمیائی ہتھیاروں کو بین الاقوامی پانیوں میں ٹھکانے لگانے کی پیش کش کی ہے۔
مجوزہ منصوبے کے تحت شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو بحرقلزم میں غرقاب کیا جائے گا اور انھیں امریکی بحری جہاز ایم وی کیپ رے کے ذریعے وہاں لایا جائے گا۔اس دوران امریکا کے بحری جنگی جہاز سمندر میں موجود رہیں گے۔
اگر اس منصوبے پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو اس سے کسی ملک کی سرزمین میں شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے سے پیدا ہونے والے سفارتی ،ماحولیاتی اور سکیورٹی مسائل سے بھی بچا جاسکے گا۔
واضح رہے کہ اوباما انتظامیہ حال برسوں کے دوران حساس معاملات میں سمندروں کو استعمال کرتی رہی ہے۔امریکی بحریہ کے کمانڈوز نے القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک شب خون کارروائی میں ہلاک کرنے کے بعد سمندر برد کردیا تھا تاکہ ان کا کسی بھی جگہ مزار بن سکے اور نہ وہ جنگجوؤں کی محفوظ پناہ گاہ بن سکے۔
صدر براک اوباما کے دور حکومت میں بیرون ملک سی آئی اے کے خفیہ عقوبت خانوں اور جیلوں کو بھی بند کردیا گیا ہے اور اب گرفتار کیے جانے والے مشتبہ افراد کو سمندروں میں موجود امریکی بحری بیڑوں پر منتقل کیا جاتا ہے اور وہیں ان سے تفتیش وتحقیقات کی جاتی ہے۔
امریکی صدر کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جوناتھن لیلے کا کہنا ہے کہ ابھی شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔تاہم دوسرے امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بہت جلد فیصلہ کر لیا جائے گا اور دسمبر کے آخر تک اس پر عمل درآمد کا آغاز ہوجائے گا۔
قبل ازیں ہیگ میں قائم کیمیائی ہتھیاروں کے امتناع کی تنظیم (او پی سی ڈبلیو) نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر کسی بھی ملک نے شام کے ایک ہزار ٹن سے زیادہ وزنی کیمیائی ہتھیار اپنے ہاں ٹھکانے لگانے سے اتفاق نہ کیا تو پھر ان کو سمندر برد کیا جاسکتا ہے۔
اس ادارے نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو بیرون ملک منتقل کرنے کے عمل میں خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔اب اگر اوپی سی ڈبلیو کی تجویز کے تحت امریکا شامی ہتھیاروں کو سمندر برد کرنے پرآمادہ ہوتا ہے تو اس پرعمل درآمد کے وقت شام سے سمندر تک ان ہتھیاروں کو لانے کے لیے کسی تیسرے ملک کی خدمات درکار ہوں گی۔
اوپی سی ڈبلیو کی ایگزیکٹو کونسل نے نومبر کے آغازمیں شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو 2014ء کے وسط تک شام سے باہر لے جانے کے لیے حتمی لائحہ عمل کی منظوری دی تھی لیکن ان کو کیسے اور کہاں تلف کیا جائے گا،آیا انھیں سمندر برد کیا جائے گا یا زمین ہی میں کہیں تلف کردیا جائے گا،اس حوالے سے 17 دسمبر کو کونسل کوئی فیصلہ کرے گی۔
واضح رہے کہ روس اور امریکا کے درمیان شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے ستمبر میں طے شدہ معاہدے کے بعد دنیا کے ممالک میں بھی اس ضمن میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے لیکن کوئی بھی ملک ان کو اپنے ہاں تلف کرنے پرآمادہ نہیں ہوا ہے۔
تین یورپی ممالک بیلجیئم ،البانیہ اور ناروے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو اپنی ،اپنی سرزمین پر ضائع کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔البتہ ناروے نے ڈنمارک کے ساتھ مل کر کیمیائی ہتھیاروں کو شام سے کسی دوسرے ملک یا جگہ منتقل کرنے کے لیے بحری جہاز دینے کی پیش کش کی تھی۔فرانس نے اس سلسلے میں اپنی مہارتی خدمات فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے لیکن اس نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس سے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔