شارلین پورٹر ::عراق میں ایک پناہ گزین کیمپ میں ایک شامی باپ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھا ہے۔ بے گھر بچوں کو جنگ کے صدمے سے نمٹنے میں مدد دینے کی ضرورت ایک بڑی پریشانی بنتی جا رہی ہے۔
واشنگٹن‘ 30 ستمبر :2013 30ستمبر کو جنیوا میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی نائب وزیر خارجہ ولیم برنز کا کہنا تھا کہ شام کے انسانی بحران کا ”تین دہائیوں میں دنیا کی سب سے بڑی نقل مکانی“بننے کی وجہ سے علاقائی استحکام اور معیشتیں خطرے سے دوچار ہیں۔
برنز نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کی انتظامی کمیٹی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی جہاں افتتاحی بحث میں مشرق وسطی کا موضوع غالب رہا۔
برنز نے بتایا کہ اپنے علاقوں میں تشدد سے 7 ملین شامی بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 2 ملین افراد ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں اور ہزاروں مزید نامعلوم افراد، جہاں کہیں بھی مل سکے، تحفظ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ 2012 کے بعد سے اس بحران کے لئے 1.3 بلین ڈالر سے زائد امداد فراہم کر چکا ہے۔ امریکہ بین الاقوامی برادری میں امداد دینے والا سرکردہ ملک ہے۔ سفارتی کارروائی پر زور دیتے ہوئے، برنز نے یو این ایچ سی آر کی انتظامی کمیٹی میں موجود 86 دیگر اقوام کے نمائندوں سے شام کے اندر انسانی بنیادوں پر امداد
میں اضافہ کرنے کےلئے کہا۔
برنز نے کہا،”(اقوام متحدہ) سیکیورٹی کونسل کے لیے یک زبان ہو کر انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے بلا روک ٹوک رسائی کا مطالبہ کرنے کا یہی مناسب ترین وقت ہے۔“ اس شامی لڑائی میں متحارب گروہ مبینہ طور پرلائنز آف کنٹرول کے آر پار امداد کی نقل و حمل کی کوششوں کو مسدود کر رہے ہیں۔ انسانی فلاحی اور امدادی کارکنوں پر براہ راست حملوں کی اطلاعات کے شواہد موجود ہیں، جبکہ تشدد کی وجہ سے بہت سے ہسپتال اور دواخانے بند ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کی جانب سے شائع ایک مضمون کے مطابق، اقوام متحدہ نے بین الاقوامی برادری سے مہاجرین کی مدد کے لیے 3 بلین ڈالر اور شام کے اندر بے گھر ہونے والے افراد کے لیے 1.4 بلین ڈالر کی اضافی امداد کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر انٹونیو گوٹیرس نے ان ہمسایہ ممالک کی تعریف کی جنھوں نے مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ”جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے شامی پناہ گزینوں کی بہت زیادہ تعداد ان ممالک کی سماجی اور اقتصادی ساخت کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے۔“
برنز اتفاق کرتے ہیں کہ لبنان، اردن، ترکی ، عراق اور مصر کوبے گھر شامی باشندوں کے ”طول پکڑنے والے بحران“ سے نمٹنے کے لیے اضافی امداد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ”اقوام متحدہ کی امدادی کوششوں کو وسیع کیا جانا چاہئے اور انہیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ترقیاتی ایجنسیوں کی شروع کردہ اقتصادی ترقی اور استحکام کے عمل سے منسلک کرنا چاہیے۔“
گٹریس نے انتظامی کمیٹی کو بتایاکہ میزبان ممالک کو صحت، تعلیم، رہائش، پانی اور توانائی کے لیے ہنگامی ترقیاتی امداد کی ضرورت ہے۔ کثیر تعداد میں اضافی افراد کی آمد کی وجہ سے یہ شعبے دباو¿ کا شکار ہو رہے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے حساب سے لبنان میں 726,000، اردن میں 525,000 اور ترکی میں 490,000 اضافی افراد آئے ہیں۔
اپنے ایک مقا لے میں پناہ گزینوں کے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ تشدد کی وجہ سے روزگار کی منڈیاں، تنخواہیں اور قیمتیں سب متاثرہوئی ہیں اور اسکے اثرات پورے خطے پر پڑ رہے ہیں، جن کی وجہ سے پناہ گزینوں اور دیگر خاندانوں کے لئے گزارہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ایک پیش گوئی کے مطابق لبنان میں بے روزگاری بڑھنے کا امکان ہے۔ جیسے جیسے جنگ کے دورانیے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس سے ہزاروں افراد ممکنہ غربت کا شکار ہو جا ئیں گے۔
برنز نے یو این ایچ سی آر کی انتظامی کمیٹی پرانتہائی غیر محفوظ افراد جیسے خواتین، بچے اور کیمپوں سے باہر رہنے والے پناہ گزینوں کو مزید جامع تحفظ دینے پر زور دیا ہے۔ برنز نے کہا کہ خطے میں عدم استحکام ایسے حالات بھی پیدا کرتا ہے جہاں انسانی سمگلنگ، صنفی بنیاد پر تشدد یا جبری شادی کے واقعات ظہور پذیر ہو سکتے ہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ آگاہی مہموں اور محفوظ پناہ گاہوں میں مزید سرمایہ لگا کر ایسے نتائج کو رونماءہونے سے روکنے کے لیے غیر سرکاری تنظیموں کی حمائت کر رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر خارجہ جان کیری نے انسانی بنیادوں پر ہنگامی حالات میں خواتین اور لڑکیوں کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے ایک اور منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ ”ابتداءسے محفوظ“نامی منصوبہ کسی بحران کے آغاز سے ہی امدادی ایجنسیوں کو کاروائی کرنے، صنفی بنیاد پر تشدد اور ظلم کی حوصلہ شکنی کرنے کی کاوشوں کو مربوط بنائے گا۔
نقل مکانی اور افراتفری میں گھرے بچے بھی طویل مدتی صدمے اور نشوونماءجیسے مسائل کے خطرات سے دوچار ہیں۔ برنز نے بچوں کے کھیلنے، سیکھنے اور ان کی زندگیوں میں خلل کا مداوا کرنے کی شروعات کے لئے محفوظ جگہیں بنانے پر زور دیا۔
پوری نہ ہونے والی غیر معمولی ضروریات کے باوجود، برنز نے اس جذبہ ایثار کی تعریف کی جس کا خطے میں پہلے ہی مظاہرہ کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا، ” جس فراخدلانہ انداز میں خطے بھر کی حکومتوں اور عوام نے اپنے گھروں، اسکولوں، اور کمیونٹیز کو لاکھوں شامی پناہ گزینوں کے لئے کھول دیا ہے، اس سے ہم سب متاثرہوئے ہیں۔“