بیماریوں کی تشخیص سے وابستہ امریکی طبی ماہرین ایک ایسے نئے پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں، جس کے تحت مختلف اقسام کے ممکنہ طور پر مہلک بیکٹیریا اور وائرس کے جینیاتی ڈھانچے یا ’ڈی این اے‘ کو توڑا یا سمجھا جا سکے گا۔ ‘جینیاتی میپنگ‘ اْس پیچیدہ عمل کو کہا جاتا ہے، جس کی مدد سے ’ڈی این اے اسٹرکچر‘ یا جینیاتی ڈھانچے کو سمجھا جاتا ہے۔ عام طور یہ عمل کم پائی جانے والی بیماریوں کے رسک کا اندازہ لگانے کے لیے اپنایا جاتا ہے تاہم اب اِس نئے منصوبے کے تحت ’فوڈ پوائزننگ‘ جیسے عام طبی عارضے کے پیچھے کارفرما جینیاتی عمل کو سمجھنے کے لیے اِس عمل سے گزرا جائے گا۔
طبی ماہرین نے اپنے اِس پروگرام میں پہلا ہدف ’لسٹیریا‘ نامی بیکٹریا کو بنایا ہے۔ یہ بیکٹیریا ’فوڈ پوائزننگ‘ کے سبب ہلاک ہونے والوں میں سے ایک تہائی اموات کا ذمہ دار ہے اور خاص طور پر حاملہ خواتین اِس کا نشانہ بنتی ہیں۔ ابتداء میں وفاقی و ریاستی اہل کار ملک میں تشخیص کیے جانے والے ’لسٹیریا‘ انفکشن کے تمام کیسوں کی ’ڈی کوڈنگ‘ کا عمل مکمل کریں گے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ آیا ایک یا اْس سے زیادہ کیسوں میں بیماری کی
جڑ یکساں تو نہیں ہے۔
’یو ایس سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن‘ کے ڈائریکٹر ٹوم فرائیڈن نے اِس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، ’’یہ انفکشنز کی تشخیص اور اْن سے لڑنے کا ایک بالکل ہی نیا طریقہ کار ہے۔‘‘’جینیاتی میپنگ‘ کا عمل اِن دنوں طب کے شعبے میں ہونے والی تحقیق میں ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے تاہم پبلک ہیلتھ کے معاملے میں اِس کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں پائے جانے والے امراض کی تشخیص کے لیے لیبارٹری ٹیسٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔بیماریوں کی روک تھام سے متعلق امریکی ادارے کے مطابق اگر اْن کا یہ منصوبہ کامیاب رہا تو ملک بھر میں کھانے پینے کی اشیاء کی حفاظت اور پبلک ہیلتھ لیباٹریوں کے نظام کو بدلا جا سکتا ہے۔ اِس منصوبے کی کامیابی کی صورت میں کئی بیماریوں کے پیلاؤ سے بچنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ جائے گا۔امریکا کے ’سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن‘ کو کانگریس کی جانب سے تیس ملین ڈالر ادا کیے گئے ہیں تاکہ ’ایڈوانسڈ مولیکیولر ڈیٹیکشن‘ نامی پروگرام کے تحت ’جین میپنگ‘ کے عمل کو پھیایا جائے اور اِس کے ذریعے ملک میں پھیلنے والے کئی انفکشنز اور بیماریوں کی جڑ تک پہنچا جا سکے اور اْنہیں روکا جا سکے۔