ریاستہائے متحدہ امریکہ میں زندگی کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا کچھ مہاجرین کے لئے مشکل ہو سکتا ہے۔ یہاں سپیڈ وے، انڈیانا میں صومالیہ کی ایک خاتون کو گرم اور ٹھنڈے پانی کے نلکے کے
استعمال کا درست طریقہ بتایا جا رہا ہے۔
واشنگٹن ‘ 31اکتوبر 2013:- ریاستہائے متحدہ امریکہ نے مالی سال 2013 میں مہاجرین کی ریکارڈ تعداد کا خیر مقدم کیا۔ اس سال ریاستہائے متحدہ امریکہ میں محفوظ پناہ گاہ پانے والے 69,930 مہاجرین، اوباما انتظامیہ کی جانب سے پناہ گزینوں کے داخلے کاایک ایسا پروگرام تیار کرنے کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں جو سلامتی چھان بین کے اہم معیارات کے علاوہ بڑھتی ہوئی انسان دوستی کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2013 میں 70,000 پناہ گزینوں کو ملک میں داخلے کی اجازت دی گئی۔ یہ تعداد داخلوں کی مقررہ حد کے قریب تر ہے جو 1980 کے بعد سے کسی بھی سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
محکمہ خارجہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے آبادی، پناہ گزین اور ہجرت، این رچرڈ نے کہا، “سمندر پار اور ریاستہائے متحدہ امریکہ بھر سے، ہر سال ہزاروں افراد امریکہ کے پناہ گزینوں کے داخلے کے پروگرام کو ممکن بناتے ہیں۔ اس پروگرام کو اتنا زیادہ کامیاب بنانے کے لئے وہ تعریف کے مستحق ہیں۔ یہ سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان مو¿ثر شراکت داری کا ثبوت ہے اور ریاستہائے متحدہ کی بہترین اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔”
2013 میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں نئے سرے سے آباد کی گئی پانچ بڑی قومیتیں عراقی، برمی، بھوٹانی، صومالی اور کیوبائی تھیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں آمد پر پناہ گزینوں کو 49 ریاستوں کی 186 کمینیٹیوں میں بسایا گیا۔ رومانیہ اور سلواکیہ کی حکومتوں کی میزبانی میں چلائے جانے والے عارضی مراکز کو استعمال کرتے ہوئے ریاستہائے متحدہ امریکہ اس قابل ہوا کہ شام میں جنگ کی وجہ سے پھنسے ہوئے عراقی مہاجرین کے ساتھ ساتھ خطرے میں مبتلا اور قبل ازیں ایران میں رہائش پذیر، افغان خواتین کو آباد کر سکے۔
محکمہ خارجہ کے مطابق شام میں تشدد کی وجہ سے 4.24 ملین (42 لاکھ 40ہزار) سے زائد شامی اندرون ملک بے گھرہوئے اور 1.5 ملین (15 لاکھ) سے زائد مہاجر ہو گئے۔
مالی سال 2014 کے لئے، صدر اوباما نے مزید 70,000 پناہ گزینوں کو آباد کرنے کی منظوری دی ہے، جن کا تعلق دنیا بھر کی تقریبا 60 قومیتوں سے ہو گا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کو عراق، برما اور بھوٹان سے زیادہ تعداد میں افراد کی آمد کی توقع ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں آباد ہونے کے خواہش مند کانگو اور شام کے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
کسی پناہ گزین کی قانونی تعریف ایک ایسے شخص کے طور پر کی جاتی ہے جو اپنے آبائی ملک سے بھاگ آیا/ آئی ہو اور مذہب، نسل، قومیت، سیاسی نظریے یا کسی مخصوص سماجی گروہ کی رکنیت کی بناءپر ایذا رسائی کے حقیقی خوف کی وجہ سے واپس نہ جا سکتا/سکتی ہو۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو-این-ایچ-سی-آر) کے تخمینے کے مطابق دنیا میں تقریبا 15.4ملین (ایک کروڑ 54 لاکھ) مہاجرین ہیں۔ یو-این-ایچ-سی-آر کی رپورٹ کے مطابق تمام پناہ گزینوں میں سے 1 فیصد سے کم افراد بالآخر کسی تیسرے ملک میں آباد ہوپاتے ہیں۔ ان میں سے ریاستہائے متحدہ امریکہ نصف سے زائد کو خوش آمدید کہتا ہے۔ یہ تعداد دیگر تمام ممالک میں آباد ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔ محکمہ خارجہ کے آبادی، پناہ گزین اور ہجرت کے دفتر کے مطابق، گزشتہ 35 سالوں میں 3 ملین (30 لاکھ) سے زائد مہاجرین ریاستہائے متحدہ امریکہ آئے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ مہاجرین کے لئے بین الاقوامی امدادی کوششوں کا سب سے زیادہ عطیہ دینے والا واحد ملک بھی ہے۔
مہاجرین کے عالمی دن کے لئے 20 جون کو اپنے تاثرات میں، وزیر خارجہ جان کیری نے “تشدد اور ایذا رسانی سے فرار ہونے والے افراد کا خیر مقدم کرنے کی امریکہ کی فخریہ روایت” کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا، “ان کی موجودگی ہمارے ملک کو زیادہ متنوع، ہماری ثقافت کو زیادہ رنگارنگ اور ہمارے قومی کردار کو زیاد مضبوط بناتی ہے۔”
٭٭٭