۔۔ طرابلس کے ہوائی اڈے پر قبضے کے لیے کئی ہفتوں سے جنگ جاری ہے
ایک سینیئر عہدے دار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ لیبیا میں اسلامی عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر عر
ب امارات کے حملے سے اسے حیرت ہوئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں ہوائی اڈے کے قریب یہ حملے عرب امارات نے مصر کے اندر واقع اڈوں سے کیے تھے۔
مصر نے اپنے ملوث ہونے کی تردید کی ہے جب کہ عرب امارات نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
کلِک طرابلس کے ہوائی اڈے پر اسلام پسندوں کا قبضہ
ایک عسکریت پسند گروہ نے ایک ماہ تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد حال ہی میں طرابلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیا تھا۔
عہدے دار نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ کو اس فضائی حملے کے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا، اور انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس میں ممکنہ طور پر فروخت کے معاہدے کے برخلاف امریکی اسلحہ استعمال کیا گیا ہو گا۔
غیرشناخت شدہ جہازوں نے گذشتہ ہفتے میں طرابلس کے ہوائی اڈے پر دو بار حملہ کیا تھا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں پیر کے دن شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ جہاز متحدہ عرب امارات کے تھے جب کہ مصر نے انھیں اپنے ہوائی اڈوں تک رسائی دی تھی۔
پیر کو امریکہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ نے ایک مشترکہ بیان میں لیبیا کے اندر ’بیرونی مداخلت‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ’وہاں موجود تقسیم میں اضافہ ہو گا اور اس سے لیبیا کے جمہوریت تک سفر کو دھچکہ پہنچے گا۔‘
واشنگٹن میں بی بی سی کی نامہ نگار پلیٹ اوشر کہتی ہیں کہ اس خطے میں اسلامی تحریکوں اور مطلق العنان حکمرانوں کے درمیان ایک اور محاذِ جنگ کھل گیا ہے۔
اوشر کے مطابق قطر نے لیبیا میں اسلامی تنظیموں کو سرمایہ اور اسلحہ فراہم کیا ہے، جب کہ مصر، عرب امارات اور سعودی عرب اسلامی تحریکوں کے پھیلاؤ کو روکنا چاہتے ہیں۔