ہتھیاروں کے اعلی ماہرین کی کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ دمشق کے نواحی علاقے “غوطہ شرقیہ” میں ہونے والے دہشت گردانہ کیمیاوی حملے میں شام کی سرکاری افواج کا کوئی کردار نہ تھا جس میں 1400 نہتے شامی باشندے اور متعدد فوجی اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے اور امریکہ نے سعودی تحریک پر حکومت شام پر الزام لگا کر اس ملک پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکی دی تھی۔
اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق ماساچوسٹ ٹیکنالوجی سینٹر کے ماہر اعلی تھیوڈور بوست (Theodore Postol) اور اقوام متحدہ کے ماہر اسلحہ “رچرڈ لوئڈ (Richard Lloyd) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان ہے: “21 اگست 2013 کو غوطہ شرقیہ میں کیمیاوی حملے کے بارے میں امریکی معلوماتی غلطی کے ممکنہ نتائج” (Possible Implications of Faulty US Technical Intelligence)۔ اس رپورٹ میں مذکورہ حملے کی وسعت کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غوطہ شرقیہ تک سیرین گیس کا وار ہیڈ لے جانے والے میزائل صرف دو کلومیٹر تک مار کرسکتے تھے اور اس صورت میں اس امکان کو کلی طور پر مسترد کیا جاسکے گا کہ شامی افواج نے بےگناہ اور نہتے عوامے کے خلاف یہ ہتھیار استعمال کئے ہونگے کیونکہ حملے کے روز سرکاری غوطہ شرقیہ سے صرف 2 کلومیٹر کے فاصلے پر تعینات تھے۔
نیز اقوام متحدہ کی تحقیقات سے غوطہ شرقیہ میں استعمال ہونے والی کیمیاوی گیس کی مقدار کی تصدیق ہوتی ہے اور غوطہ شرقیہ میں کیمیاوی ہتھیاروں سے متعلق امریکیوں کی رپورٹ غلط تھی اور امریکی انتظامیہ پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ اس غلطی کی کیفیت کے بارے میں عالمی برادری کے سامنے وضاحت کرے۔
رشیا ٹوڈے (عربی سروس) کے مطابق اس رپورٹ میں اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ شامی فوج بغیر کسی بیرونی تعاون کے اس طرح کے کیمیاوی ہتھیار نہیں بنا سکتی تھی، اور کہا ہے کہ دستی کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری ممکن ہے اور جس کسی کے پاس تھوڑے سے وسائل اور ایک چھوٹا سا ورکشاپ ہو وہ اس طرح کا گولہ بارود بآسانی تیار کرسکتا ہے۔
اس رپورٹ کا ایک خاص نکتہ یہ ہے کہ جو کیمیاوی ہتھیار حکومت شام نے کیمیاوی تخفیف اسلحہ کے عالمی ادارے کے سپرد کئے ہیں وہ غوطہ شرقیہ سے برآمد ہونے والے کیمیاوی ہتھیاروں اور ميزائلوں سے کسی قسم کی شباہت نہيں رکھتے۔ اور اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ شامی فوج نے کیمیاوی ہتھیار استعمال نہيں کئے اور اس طرح کے ہتھیار شامی فوج کے پاس سرے سے موجود ہی نہيں تھے۔