اسرائیل کی پولیس نے دعوی کیا ہے کہ ہتھیار رکھنے کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے ایک امریکی شہری سے تفتیش کےدوران اس نے بتایا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو نشانہ بنانے پر غور کر رہا تھا۔
امریکہ میں منشیات کے الزامات میں مطلوب عیسائی ایڈم ایورٹ لویزی کو گزشتہ ماہ گرفتار کیا گیا تھا جب ایک خفیہ ایجنٹ نے اس کے منصوبے کا پتا لگا لیا تھا۔
اسرائیلی فوج کے چوری شدہ بارود اور اسلح ان کے گھر سے برآمد ہوا تھا۔
ایڈم ایورٹ لویزی کے وکیل کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام اس کیس سے منسلک سکیورٹی خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔
اس شخص کی گرفتاری ایک ایسے وقت عمل میں لائی گئی ہے جب اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا پر ہے۔ اس کشیدگی کی ایک بڑی وجہ اس مقدس مقام تک رسائی کا کہا ہے جسے یہودی ’ٹیمپل موانٹ‘ کہتے ہیں اور مسلمان اس حرم الشریف کا نام دیتے ہیں۔
نفسیاتی تجزیہ لویزی پر پیر کو اپنے ساتھ رہنے والے ایک اسرائیلی فوجی کے ساتھ مل کر اسرائیلی فوج کے ذخیرہ سے ڈیڑھ کلو گرام بارود اور ملک میں غیر قانونی طور پر قیام کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔
اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ امریکی ریاست ٹکساس کے رہنے والے تیس سالہ اس شخص کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ سنہ دو ہزار تیرہ میں فلسطینی علاقوں میں وارد ہوا تھا۔
ابتدا میں وہ غرب اردن میں رہا جہاں مبینہ طور پر اس سے ایک فلسطینی نے پوچھا کہ کیا وہ غرب اردن کے دورے کے دوران امریکی صدر براک اوباما کو قتل کرنے پر تیار ہو جائے گا۔ پولیس کے مطابق لویزی نے اس سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے بعد لویزی اسرائیل منتقل ہو گیا اور اس نے اپنے آپ کو امریکی نیوی کے سیل کمانڈو کے طور پر متعرف کرایا۔
اس نے دوران تفتیس اسرائیل میں رہنے والے عربوں کے خلاف اپنے جذبات اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کو تباہ کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ فرد جرم میں کہا گیا کہ ان کا اعتراف اس نے مبینہ طور پر پولیس اور سکیورٹی فورسز سے بھی کیا۔
عدالت نے ملزم کا نفسیاتی اور ذہنی معائنے کا حکم دیا ہے۔