بغداد؛.امریکی اور خلیجی میڈیا کے مطابق ایک سابق عراقی رکن پارلیمنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما شیعہ ہے اس لئے اس کے ایران سے اچھے تعلقات ہیں، اوباما کا درمیانی نام ’حسین ‘ ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شیعہ مسلمان ہیں۔ امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے اپنے مضمون میں لکھا کہ اوباما کے مسلمان ہونے کے سازشی نظریات میں ایک نیا رخ آیا ہے، یو ٹیوب پر عراقی رکن پارلیمنٹ نے اسے شیعہ ثابت کرنے کے لئے غیر معمولی وضاحت پیش کی، جس میں اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی اوباما ایران کی طرف ہمدردانہ رجحان کیوں رکھتا ہے۔
اپنے والدین کے شیعہ پس منظر کی وجہ سے اوباما ایران کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے۔ امریکی قارئین کو یہ بات صدمے سے دوچار کرسکتی ہے، جب انہیں پتہ چلے کہ ایک باعمل عیسائی پر ایک خفیہ اسلامی ایجنڈے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اوباما کے صدارتی انتخابات سے قبل بھی ان کے مسلمان ہونے کی افواہیں زیر گردش رہی، ان کے والد کو مسلمان بیان کیا گیا اور کہا گیا کہ اوباما نے انڈونیشیا میں ایک بنیاد پرست اسلامی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ گزشتہ برس ایک سروے کے مطابق 54فیصد ری پلیکن یہ سمجھتے ہیں کہ اوباما مسلمان ہیں۔ حال ہی میں ایک شامی مصنف نے لندن کے ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے اور میں کسی نظریے کے پیچھے نہیں اور نہ میں نسل پرست ہوں مگر باراک اوباما ایک شیعہ کینیائی باپ کا بیٹا ہے۔ خلیجی اخبار ’العربیہ‘ کے مطابق سابق عراقی رکن پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ اسے یقین ہے کہ امریکی صدر براک اوباما ایک شیعہ باپ اور ماں کے گھر پروان چڑھے۔ ان کے خاندان کے شیعہ ہونے کی وجہ وہ ایران کی مدد کرتے ہیں۔ ایک عربی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے طحیٰ الحیبی نے کہا کہ میں یہ کہوں گا، تو میری بات کو کچھ لوگ قہقہے میں اڑا سکتے ہیں کہ اوباما شیعہ باپ کے گھر میں پروان چڑھے۔ اوباما کے والد حسین اور ان کی والدہ شیعہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اوباما کا درمیانی نام حسین ہے جو اس کے پس منظر کا مزید ثبوت ہے، اس لئے وہ ایرانی شیعہ کا ساتھ دے رہا ہے۔