امریکی حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ شام میں امریکی فضائی حملوں کی زد میں آ کر دو بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکہ نے فضائی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی مہم کے سربراہ نے کہا کہ انھیں غیر اردای طور پر ہونے والے اس نقصان پر بہت افسوس ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کا کہنا ہے کہ یہ فضائی حملہ حریم شہر میں القاعدہ سے منسلک خراسانی گروپ کے خلاف کیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ حملے سے قبل وہاں بچوں کی موجودگی سے متعلق کوئی اطلاعات نہیں ملی تھیں۔
یہ بات امریکی عسکری حکام کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔
تحقیقات کے بارے میں جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون نے ’تفصیلی جائزہ‘ لینے کے بعد کہا تھا کہ نشانہ بنائے جانے والی عمارت صرف عسکری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دھاکہ خیز مواد بنانے والی فیکٹری پر فضائی حملے میں دو نابالغ بچے زخمی بھی ہوئے تھے۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکہ نے فضائی حملوں میں شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ شام کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزویٹری گروپ کا کہنا ہے کہ فضائی حلموں میں 100 سے زیادہ بےگناہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
سیریئن آبزویٹری گروپ کے مطابق حلب میں ایک فضائی حملے کے دوران 52 عام شہری ہلاک ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے کہا ہے کہ فی الحال انھیں اس ’ضمن میں معلومات نہیں ہیں لیکن ہم تمام الزامات کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔‘
سیریئن آبزویٹری گروپ کا کہنا ہے کہ امریکی اور اس کی اتحادی افواج کے فضائی حملوں میں2440 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے ہے۔
پہلی بار اعتراف
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکہ نے فضائی حملوں میں شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، جبکہ شام کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزویٹری گروپ کا کہنا ہے کہ فضائی حلموں میں سو سے زیادہ بےگناہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
امریکی محکمۂ دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انھوں نے فضائی حملوں میں 48 عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات کا جائزہ لیا ہے جن میں 35 اطلاعات یا تو درست نہیں تھیں یا پھر اُن کے بارے میں مکمل معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔
القاعدہ سے وابستہ خراسان گروہ کے بارے میں قدرے کم معلومات دستیاب ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ خراسان گروہ میں پاکستان اور افغانستان میں لڑنے والے ماہر جنگجو شامل ہیں، جو بعد میں القاعدہ کے النصرہ فرنٹ میں ضم ہو گئے۔
شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کیے جانے والے فضائی حملوں میں امریکہ کے علاوہ برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور اردن کی افواج شامل ہیں۔