واشنگٹن: امریکہ کے صدر بارک اوباما نے کہا کہ شام میں اپنے خصوصی فوجی دستہ کو تعینات کرے گا جو اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کے خلاف جنگ میں حریف فوجیوں کو مشورہ دیں گے لیکن زمینی لڑائی میں شامل ہونے کا ان کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔مسٹر اوباما نے ایک انٹرویو میں آج کہا کہ شام میں دہشت گردوں کے خلاف پہلے سے خصوصی مہم چلائی جا رہی ہے اور حریف فوجیوں کو مشورہ دینے کا منصوبہ اسی مہم کی توسیع ہے ۔ انہوں نے کہاکہ آئی ایس کے خلاف جنگ میں امریکی فوج قیادت نہیں کرے گی۔وائٹ ہا¶س کا کہنا ہے کہ شام روانہ کی گئی امریکی ‘اسپیشل آپریشنز’ فوجیں وہاں چھاپوں یا حملوں میں حصہ نہیں لیں گی۔وائٹ ہا¶س میں قومی سلامتی کے معاون مشیر، بین رہوڈز نے ‘ڈفنس ون سمٹ’ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘وہ شام کے اندر لڑائی میں افواج کے ہمراہ نہیں لڑیں گے ’۔
رہوڈز نے کہا کہ ‘اِن فوجیوں کی تعیناتی کا مقصد عددی اضافہ لانا ہے جس سے داعش کے خلاف لڑائی میں محاذ پر موجود مقامی فورسز اپنی کارروائی پر دھیان مرکوز کرنے میں مدد مل سکے گی، تاکہ وہ اپنا کھویا ہوا علاقہ واگزار کرا سکیں‘۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ‘امریکی فوج دشمن کے کسی حملے کا جواب دے سکتی ہے ’۔
گذشتہ ہفتے ، امریکی صدر براک اوباما نے 50 تک امریکی اسپیشل آپریشنز فوجیوں کو روانہ کرنے کا اختیار دیا ہے ، تاکہ مقامی شامی لڑاکا تحاریک امریکی قیادت والے اتحاد کے ساتھ رابطے برقرار رکھ کر داعش کے شدت پسندوں سے بہتر طور پر نبرد آزما ہوسکیں۔ایک اعلیٰ دفاعی اہل کار کے مطابق، یہ امریکی فوجی اگلے چند ہفتوں کے دوران شام میں داخل ہوں گے اور تعیناتی کے دوران 60 دِن سے زیادہ مدت تک ملک میں نہیں رہیں گے ۔ وہ مقامی شامی افواج، عرب، کُرد اور ترک لڑاکوں کے ہیڈکوارٹرز ہی پر موجود رہیں گے ، تاکہ تیار کیے گئے حربوں، کارروائی کی منصوبہ بندی اور تعیناتی میں مدد دی جاسکے ۔اعلیٰ اہل کار کے الفاظ میں ‘ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سر زمین پر موجود ہوں، اُن سے تعلق میں رہیں۔ بالمشافیٰ رابطے سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں’۔ایک اور اعلیٰ امریکی اہل کار نے ‘وائس آف امریکہ’ کے ساتھ انٹرویو میں بتایا کہ خصوصی آپریشنز فورسز ترکی کے ساتھ کے ملنے والے قریبی علاقے میں موجود ہوں گی، تاکہ ضرورت پڑنے پر اُنھیں فوری طور پر واپس بلایا جاسکے ۔امریکہ کی یہ پہلے زمینی فوجی ہیں جنھیں متعین کارروائی یا کسی خاص مشن کے علاوہ شام بھیجا گیا ہے ۔